کسی بھی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی اور کلیدی کردار خاندان کا ہوتا ہے ،اور خاندان کے نام کا یہ ادارہ مرد اور عورت کے اس رشتے کے طفیل ہی وجود میں آتا ہے جسے ہر مہذب معاشرے میں شادی کا نام دیا جاتا ہے۔لہٰذا نسلِ انسانی کی بقا کیلئے شادی ایک ناگزیر عمل ہے جس کامنطقی نتیجہ بچوں کی پیدائش کی صورت میں سامنے آتاہے۔پیدا ہونے والے یہی بچے جب سنِ بلوغت میں پہنچ کربھر پور مرد اور عورت کا روپ ا ختیا ر کرتے ہیں تو ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور یوں مختلف خاندانوں کے باہمی تعامل اور آپس میں رشتے داریوں سے ایک معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے۔لیکن پیدا ہونے والے ہر بچے کی جنس کا شمار عورت یا مرد کی حیثیت سے نہیں کیا جاتااور بعض اوقات ایسے بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو طبی لحاظ سے نہ تو مکمل مرد ہوتے ہیں ،اورنہ ہی مکمل عورت ،بعض میں نسوانی جنسی اعضا کیساتھ مردانہ خصوصیات زیادہ ہوتی ہیں ،اور بعض میں مردانہ جنسی اعضا کیساتھ زنانہ ،اور چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں بیک وقت مردوں اور عورتوں جیسے دونوں ہی طرح کے جنسی اعضا پائے جاتے ہیں۔ گو ان کی مخصوص اندرونی اور بیرونی جسمانی ساخت کی تشکیل میں ان کا اپنا کوئی کردار اورقصور نہیں ہوتا لیکن لوگ شاید ایسا نہیں سمجھتے ،اور ا ن کے خلاف ایک خاص تضحیک آمیزرویہ اپناتے ہوئے ،ایسے بچوں کا شمار تیسری جنس کی حیثیت سے کرتے ہیں، اور آپس کی بول چال میں ان کا ذکر ہیجڑے،زنخے، کُھسرے، مُخنّث،زنانے ، تیسری مخلوق،چھّکے،شی میل اور خواجہ سرا ء جیسے دیگر ناموں سے کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کی شرمناک حد تک گری ہوئی شرح خواندگی اوردین سے دوری ،دو ایسی بڑی وجوہ ہیں کہ جن کی بدولت ایسے بچے اپنی پیدائش سے لے کر اپنے مرنے تک ’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘‘ کی جیتی جاگتی تفسیر کہلائے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو والدین ہی اپنے ہاں ایسے بچوں کی ولادت پہ دل گرفتہ ہو کر ان کی جنس کے متعلق بات کرتے ہو ئے گھبراتے ہیں اور اکثر ان کے جذبات غم واندوہ کی سی کیفیت اس لئے بھی لئے ہوتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔لیکن ایسی باتیں چونکہ زیادہ دیر تک چھپائی نہیں جا سکتیں لہٰذا ،عام ہو جانے پرماں کی نسبت زیادہ تر باپ اور گھر کے دیگر افراد، ایسے بچوں کو اپنی خود ساختہ بے عزتی تصور کرتے ہوئے اولاً انہیں ہر معاملے میں نظراندازکرتے ہوئے بالآخر دھتکارنا شروع کر دیتے ہیں۔اس حوا لے سے شعیب منصور کی فلم’’بول‘‘میں ایسے معا ملات کی بھر پور طریقے سے عکاسی کی گئی ہے۔
بہرحال مذکورہ بالا رویہ تو وہ ہے جو گھر والے ان پہ روا رکھتے ہیں جبکہ بڑے ہونے پر گھر سے باہر ان مجبورو مقہور اور مظلوم خواجہ سراؤں کو لوگوں کی ہوس زدہ نظروں،شرمناک اشاروں ، فحش بُلاووں،اخلاق باختہ صداؤں اورلواطت پرست لوگوں کے بہلاوو ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاًایسے بچے والدین کی عدم توجہگی اور مذکورہ سمیت دیگر وجوہ کی بدولت تعلیم حاصل کرنے سے عموماً محروم ہی رہتے ہیں اور مجموعی طور پر تضحیک آمیز معاشرتی رویوں کی بدولت وہ انہی ڈیروں اور چوباروں کا رُخ کر لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں پر ان جیسے معاشرے کے دھتکارے ہوئے دیگر خواجہ سرا ء گُرو ؤں اور چیلوں کی ٹولیوں کی شکل میں پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں۔ان کے یہ ٹھکانے عمومی طور پر ہر شہر اور قصبے کے پسماندہ ترین علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔غیر تعلیم یافتہ اور غیر ہنر مند ہونے کی بنا پر یہ نووارد خواجہ سراء پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر ان ڈیروں پہ نا چ گانے کی تربیت حاصل کر کے ’’کاریگر‘‘کا درجہ پا لینے کے بعد شادی بیاہ اورلوگوں کے ہاں بیٹوں کی پیدائش کیساتھ، خوشی کی دیگر تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے ’’ویلوں‘‘ کی شکل میں جو روپیہ پیسہ وصول کرتے ہیں ،اس کا ایک بڑا حصّہ اپنے ’’ گُرو‘‘ کی خدمت میں پیش کر کے ہی اپنے جینے کا بندوبست کر پاتے ہیں۔
دست سوال دراز کرنے پر عام طور پرخدا ترس لوگ ان کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے اور ان کی بددعا ؤں سے ڈرتے ہیں۔ چونکہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے نہ کوئی انسانی حقوق کی تنظیم ہی سرگرم ہے اور نہ کوئی مخصوص حکومتی ادارہ، لہٰذا عمر ڈھل جانے پر یہ اکثر بھیک مانگ کر ہی اپنا گزارا کرتے ہیں ۔ بہرحال ان کے مسکن جو ڈیرے ہوتے ہیں ان میں اکثر و بیشتر لڑائی جھگڑے اور خون خرابے کے واقعات پیش آتے ہی رہتے ہیں۔جن میں سے زیادہ تر واقعات کے پیش آنے کا باعث بننے میں سرِفہرست،ایک گُرو کے زیرِتصرف علاقے میں، کسی اور گُرو کے چیلوں کی سرگرمیاں اور خود سپردگی کی لت میں مبتلاخواجہ سراؤں کا اپنے مستقل عاشقوں سے بے وفائی اور انہیں دھوکہ دینے جیسے محرکات شامل ہوتے ہیں۔
ہم جنس پرستی جیسی قبیح اور نسلِ انسانی کی قاتل اس گھناؤنی بیماری کے شکار افراد، اس گھٹیا فعل کے ارتکاب او راپنے شہوانی جذبات کی تسکین کیلئے اکثر ان ڈیروں اور چوباروں کا رُخ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں،جہاں خود سپردگی کے شوقین خواجہ سراء حضرات ان کی ’’خدمت‘‘کے لئے پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں،اور بد فعلی کروانے سے انکار کرنے والے خواجہ سراؤں کو بھی تشدد اور زور زبردستی سے بالآخر طوعاًوکرہاًان تماش بینوں کی غلیظ خواہشات کی تکمیل میں، ’’چاروں شانے چِت ‘‘ہونا ہی پڑتا ہے۔یونہی گرتے پڑتے ایک دن جب ان کی سانسیں تمام ہو جاتی ہیں تو تمام تر رشتے ناطے ہونے کے باوجود ان کو لاوارثوں کی سی حیثیت سے رات گئے کسی قبرستان میں سپردِخاک کر دیا جاتا ہے۔
ان کی پیدائش طبّی لحاظ سے شاید نارمل انسانوں کے لئے قدرت کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے ،جس میں ہرکوئی پورا نہیں اترتا،چناچہ بچپن ،لڑکپن ،جوانی اور بڑھاپے کے تمام مراحل میں ان کو معاشرتی جبر وستم سہتے ہوئے قدم قدم پہ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اووز کی ترجیحات میں خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے امور جیسے اہم کام شایداس لئے شامل نہیں ہوتے کہ اس کے بدلے میں انہیں رقمیں وصول نہیں ہو پاتیں،لہٰذا عملی طور پر اس اہم کمیونٹی کے لئے ان کی طرف سے بھی آج تک بظاہر کوئی بھی احسن اقدام نہیں اٹھا یاگیا۔ مردم شماری میں ان کو شامل نہیں کیا جاتا اور شناختی کارڈ بنوانے کے لئے مخصوص فارم میں ان کی جنس کے اندارج کیلئے کوئی خانہ بھی موجودنہیں ہے۔ انسانوں کی بستیوں میں ہی بسنے والے یہ خواجہ سراء بھی چونکہ انسان ہی ہوتے ہیں،اس لئے زمانے بھر کے کڑوے کسیلے طنزاپنے اوپر سہہ کر کبھی کبھار یہ رو بھی لیتے ہیں ،اور خاص طور پر اپنے کسی ساتھی کی موت پر ان کی ساون بھادوں آنکھوں سے نکلنے والا ہر آنسو اپنے ساتھ ہمارے لئے یہ سوال بھی لئے ہوتا ہے کہ،
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکّرر نہیں ہوں میں
____________________________________________________
اے آر بابر ایک کہنہ مشق صحافی ہیں ۔سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیر میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے ان کی تحریریں مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔