میں شفیق الرحمن کی کتا ب حما قتیں پڑھ رہا تھا جس میں ’’موڈی جونز‘‘ اپنے بچپن کے واقعات سنا رہے تھے۔موڈی جونزکہتے ہیں۔’’جب میں پیداہواتو بز رگوں نے میری آئندہ تعلیم کے متعلق فیصلہ کر نا چاہا کہ میں انجینئر نگ پڑھوں یا قانون ؟۔۔۔پاس ہی نرس کھڑی تھی کہ ایک ہاتھ میں انجینئروں کا آلہ پکڑ کر دادا جان نے فرما یا جو پسند آئے چن لو ۔میں کچھ دیر سوچتا رہا۔ بڑے غورو خوض کے بعد جا نتے ہو میں نے نہایت لا جواب انتخاب کیا۔ میں نے نرس چن لیا۔۔۔
جب میں نے یہ واقعہ اپنے ایک موڈی دوست کو سنا یا تو انہوں نے اپنے دل کو بپتا کا حال سنا یا ۔کہتے جب میں نے پہلی دفعہ عطااللہ عیسی خیلوی کی آواز کانوں میں پڑی تو پر انے پیار کی یاد میں ایک گھنٹہ رویا۔ پھر یاد آیا میرا تو کوئی پرانا پیار ہے ہی نہیں ۔ میں تو شادی شدہ ہوں۔ دو گھنٹے پھر رویا۔
ویسے تو ایک پاکستا نی کی ساری عمر دو فقروں میں بیان ہو جاتی ہے ،پہلا ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے ؟دوسرا اپنی عمر تو دیکھ ۔میرا تخیل اور قلم آج پہلے فقرے سے متعلق واقعا ت کی طرف ہے۔ جب ہم ریت میں پاؤں دبا کر گھربنا کر خوش ہوتے اور پھر اسے مسما ر کر کے بھی خوش ہوتے تھے۔ جب ہمیں دہشت گرد بس وہ لڑکیاں لگتی تھیں (جو آ ج کل ہمیں کسی بھی حسیناؤں سے کم نہیں لگتیں) جو ٹیچر کے کلاس میں آتے ہی انہیں یاد دلا دیتی تھیں کہ سر آپ نے ٹیسٹ لینے کا بولا تھا ۔ ویسے آج کل کے بچے کیا سمجھیں کہ ہم نے کتنی مشکلات میں پڑھائی کی ہے۔ کبھی کبھی تو ٹیچر صرف موڈ فریش کرنے کے لیے بھی ہماری پٹا ئی کر دیاکرتے تھے ۔
آج کل کے بچے ریفریش ہونے کے لیے جہاں واٹر پارک اور گیمنگ زون جانے کی ضد کر تے ہیں ۔ وہیں ہم ایسے بچے تھے جو ماں جی اور ابا جی کے ایک پھٹکے سے ہی فریش ہو جا تے تھے ۔ اور سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ جب کوئی رشتے دار جاتے ہوئے دس روپے دے جاتے تو ماں فوراََٹیکس کاٹ کر دوروپے تھما دیتیں اور ہم کشمیر کی طرح یہ جبر بھی سہہ جاتے اور تو اور جب گھر کا TV خراب ہوجاتا تو والدین کہتے بچوں نے خراب کیا ہے اور جب ہم کوئی شرارت کرتے تو والدیں کہتے ان کو TVنے ہی بگاڑ دیاہے۔ آج کل کے بچوں کو ان کے والدیں سکول بس میں بٹھا کر ہائے ہائے کر تے ہیں۔جیسے بچوں کو سات سمندر پار بھیج رہے ہیں اور ایک ہم تھے جو روز لات کھا کر ہائے ہائے کرتے سکول جا تے تھے۔
یہ تو والدین شکریہ ادا کریں ہنی سنگھ اور جان سینا کا ،جوبچوں کو فیشن کے نام پر بال باریک اور چھوٹے رکھنا سکھا دئیے۔ ہماری تو سب سے زیادہ پٹائی ہی بالوں کو لیکر ہو تی تھی ہم ’’ دل جلے‘‘ کے اجے دیو گن بنے پھرتے اور جس دن ابا جی کے ہاتھ لگ جاتے اس دن حجام کی دو کان سے ’’کرانتی ویر ‘‘ بن کر گھر آتے۔ کل کے ایک بچے کا واقعہ دیکھ کر تو میرے آنسو نکل آئے جب اس بچے کے والد سے جنریٹر سٹارٹ نہیں ہو رہا تھا تو بچے نے جنریٹرکی Kickماری تو جنر یٹر سٹارٹ ہو گیا۔ والد نے نا صرف بچے کی تعریف کی بلکہ زنگر برگر بھی لے کر دیا اور ہمارے بچپن میں گھر کی مو ٹررات کو خراب ہوئی تو ابا جی مجھے ساتھ لیکر ٹھیک کرنے گئے ۔ مجھے ٹارچ پکڑائی اور لگے ایک بو لٹ کھولنے ۔ کئی دفعہ زور لگانے کے بعد بھی جب بولٹ ٹس سے مس نہ ہوا تو خفت اور غصے سے ان کا رنگ لال ہوگیا۔ اچانک انہوں نے مجھ سے ٹارچ لیکر پیچ کس پکڑاتے ہوئے کہاتم کوشش کرو۔ میری ہلکی سی کوشش سے بولٹ کھل گیا بتانے والی یہ بات نہیں، بتانے والی یہ بات ہے کہ ابا جی نے بجائے مجھے شاباش دینے کے ،مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا:بے غیرتا! اب یہ دیکھا ہے کہ ٹارچ کیسے پکڑتے ہیں؟
ہمارے بچپن میں میٹھی میٹھی لڑائی کا سبب ، بھائی بھائی سے ، بہن بہن سے پنکھے کے آگے والی چار پائی کے لیے لڑتے تھے ۔لیکن ایک قدر سب گھروں میں مشترک ہوتی تھی کہ سب سے آخروالی چارپائی ہمیشہ ماں کی ہوتی تھی۔ حالانکہ ماں سمیت سب ہی جانتے تھے یہ محض ایک بہانہ ہے۔ پھر مکانوں اور جائیدادوں پر۔ اور وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ۔ اور وہی ماں جو سب کو اکٹھا رکھنے کے لیے آخر والی چار پائی پر سوتی تھی اب بس اس ماں کو کبھی ادھر ،کبھی ادھر ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے یہ اولاد۔ ہاں میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے۔۔۔!
____________________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔