چند قلمی چٹخارے، تحریر: اے آر بابر

* افلاس میں اخلاص اکثر نایاب ہوجاتا ہے۔
*دل میں اخلاص ہو تو پورے جسمانی نظام میں ہر عضو اپنی فطرت کے مطابق ہو جاتا ہے۔
* چل چلاؤ کی دنیا میں رکھ رکھاؤ کے شوقین کیا حافظے کی کمزوری کا شکار نہیں !
* میز کی ایجاد اس لئے نہیں ہوئی تھی کہ اِس کے نیچے سود ے ہوتے رہیں۔
** *
*رعایا کو رعایت نہیں دی جاتی اس پہ صرف حکم چلایا جاتا ہے،اور قوم خود آگے بڑھ کر رعائیتں ،سہولتیں اور آسائشیں،چھین لیتی ہے۔
*مفاد کی مورتی خود غرضی کے مندر میں، رشتوں کی منافقانہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں سے اپنی پرستش کرواتی ہی رہی ہے ،اور کرواتی ہی رہے گی۔
* منا فقت عموماً شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوتی ہے۔
* وضع داری اور امورِ خانہ داری دورِ حاضر میں بالعکس متناسب ہیں۔
* خالی جیب اور تعلقات 236 باہم متضاد یعنی ناممکنات
* حاد ثاتی آسودگی اکثر بے ہودگی سے ہی لتھڑی ہوتی ہے۔
** *
* سواری کوئی سی بھی ہو ،عموماًایک خاص عرصے تک ہی سواراس سے مطمئن رہتاہے۔
* قوالی سنانا ،چیونگم چبانااور مُوڈ دکھانا،جتنا جی چاہے بڑھا لیں ،جب چاہیں ختم کر دیں۔
* متشدّد نظریات والوں کی اکثریت قاتلِ موسیقی اور راہزنِ سُر تال ہوتی ہے۔
* پیارے وطن میں کرپشن کے لا تعداد چور طریقے، اور طور طریقے اہلِ ہنر سے داد وصولتے ہی رہتے ہیں۔
** *
* جہاں قتل معمول ،انصاف ڈائینوسارس ،فحاشی سٹیٹس سمبل ،دھوکہ دہی سَرِشت ،جھوٹ فطرت، مکاری اضافی خوبی ،سزا تھکے ہوئے اعصاب کے لئے مساج اور مجموعی طور پرصرف دولت کا حصول ہی مقصدِ حیات سمجھا جانے لگے ،تو ایسا معاشرہ جمہوری توہو سکتاہے مگر، اسلامی ہر گز نہیں ۔
* محبت کے لبادے میں جنسی بے راہ روی کو رواج دینے والے ایسے پروگرام، کہ جنہیں دیکھ کر بوڑھوں میں پچھتاوے، شادی شدگان میں شرمندگی ،کنواروں میں قرار اور بچوں میں قبل از وقت بلوغت کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جائے ،کسی بھی ملک کے میڈیا کے مادر پدر آزاد ہونے کی علامت ہوتے ہیں۔
* گھروں میں بیٹھے ہوئے ہر عمر کے افراد کو، برقی تاروں کے زریعے منظم طریقے سے زیادہ تر جنسیات کی بلا ناغہ سستی تعلیم دینے والا ’’کیبل نیٹ ورک ‘‘کہلاتا ہے۔
** *
* ترقی پزیر ممالک میں شہوانی جذبات کو تحریک دینے کے لئے ،سنیاسی بابوں اور بنگالی جادوگروں کا متبادل انٹر نیٹ کنکشن بن چکا ہے۔
* اپنے بچوں کے لئے ماں باپ کاپیار، یک طرفہ ٹریفک کی مانند ہوتاہے،جس میں کوئی ےُو ٹرن نہیں آتا۔
* الفت میں بے چینی نہیں چاہ ہوتی ہے ،محبت میں تنہائی تباہ ہوتی ہے اور عشق میں صحرا کی راہ ہوتی ہے۔
* صرف امراء کی ہی اچھی تعلیم تک رسائی ، در حقیقت انسانیت کی تباہی ۔
** *
* جہالت کی خماری ہوش میں آنے ہی نہیں دیتی، غیر فعال ذہن میں سوچ کیسے جنم لے سکتی ہے،اچھی یا بری کا تعین تو بعد کی بات ہے۔
* ہمارے ملک میں کاغذ کا وہ ٹکڑا جسے ڈگری کہا جاتا ہے ،آدمی کی لیاقت جانچنے کا ایک ایسا آلہ ہے، کہ جس کی صداقت، اپنے دامن میں ہر قسم کے شک وشبہات لئے ہوتی ہے۔
* عزرائیل کی آمد تک ، اکثریت میں جےئے ہی چلے جانے کی تمنا ،توانا رہتی ہے۔
* اقوامِ عالم کو سدھارنے کے متمنی ،سرکاری اہلکاروں کوراہِ راست پہ لانے کے لئے معمولی سی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
** *
* انتخابات سے پہلے اپنے آپ کو مومنین میں شمار کروانے والے اکثر لیڈرانِ پست مقام ،بعد میں عوامی سطح پر منافقینِ مکہ جیسے کرداروں کا عملی تسلسل قرار دئیے جاتے ہیں۔
* اقوامِ عالم میں مردانگی کے جوہر دکھانے کا دعویٰ ،ملکی آبادی میں صرف اضافے کی شکل میں ہی سامنے آرہاہے ۔
* بڑھا ہوا پیٹ ،جسے عرفِ عام میں توند کہا جاتا ہے اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ،پتلون کو زیبِ تن کرنے کے لئے ،سانس کو اند ر کھینچ کر اسے بڑی مشقت سے،اُس میں پیک کیا جاتا ہے۔
* اکثر سنجیدہ لوگ ہی پیچیدہ اور نازوں میں پلے ہی رنجیدہ ہوتے ہیں۔
* تعصب زدہ حکائتیں،حسّاس دلوں کی آزمائشیں بن جاتی ہیں۔
** *
* بے غیرتی ،مفلوجی ہی کی ایک قسم ہوتی ہے۔
* تشنگی ،قناعت کی ضد ہے۔
* تسلی، کم ازکم الفاظ میں خود ہی بھگتو کے اظہار کی لطیف شکل ہے۔
* مختلف جذبات کی مادی اشکال ،آنسو کہلاتی ہیں۔
* روزہ موجودہ دور میں خود ہی اپنے آپ کو رکھے ہوئے ہے ،اسی لئے اس کی برکتوں کا فیض آج کل کے مسلمانوں میں نظر ہی نہیں آتا۔
** *
* سکتہ ٹوٹتے ہی آسمان،جب رونے پہ آتاہے تو ،زمین کے لئے کبھی غسلِ جنابت ،کبھی طوفانِ نوح اور کبھی آبِ حیات ثابت ہوتا ہے۔
* محبت اگر اندھی ہو تی ہے،تو خلوص یقیناًلنگڑا رہا ہو گا ،ذہن مفلوج ،فہم باؤلی ،سوچ ضعیف اور فکر ناتواں ، تبھی تو نابینا بنا دی گئی،وگرنہ اس میں مبتلا تو، حساب میں علامہ مشرقی،سائنس میں آئن سٹائن،استغراق میں قدیم یونانی، طب میں بو علی سینا،ڈرامے میں شیکسپئیر،سنگیت میں بڑے غلام علیخاں، شاعری میں مرزا غالب،صحافت میں آغا شورش،اور سخاوت میں حاتم طائی ہوتاہے۔
____________________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں