بیمار معاشرہ، تحریر:اے آر بابر

ایک ایسے معاشرے میں جہاں،ظالم نہ صرف معتبر اور مظلوم حقیرہوں ،بلکہ ظالم ظلم کر کے مطمئن اور مظلوم اسے سہہ کر بھی شاداں ہوں،ڈاکٹر اور حکیم لُو ٹ مار کے بعد بھی صادق اور مریض خود کو لٹوا کر بھی دانا ہوں،استاد ٹاٹ نشیں اور شاگرد صوفہ نشیں ہوں،پیشہ وکالت اور حصولِ انصاف عین ذلالت ہو ،منصف خود انصاف کے متلاشی ہوں،دکاندا ر قسم فروش اور خریدار محوِ خوابِ خرگوش ہوں،مستری کے اوزار درحقیقت ڈاکو کے ہتھیار ہوں،بیوروکریسی اور کاسہ لیسی ہمنوا و ہم رکاب ہوں،سیاستدانوں کے نزدیک ارضِ وطن ایک پاندان،عوام جس میں سپاری قوام اور نتیجہ بلآخر اگا لدان ہو،چھوٹا ملازم بڑے عزائم سے لدا اور بڑا ملازم چھوٹے وچاروں سے ہلکا ہو،چور ڈکیت عالیجاہ اور عوا م روسیاہ ہوں،نوٹ بوڑھے، محتاج ، لرزتے ہاتھوں ،سوالی نگاہوں اور بے جرم سزاواروں کی جھولی میں نہیں، بلکہ طوائف کی کھولی میں ہی کڑکڑاتے ہوں،رشتے غیرت و اخلاص کے خمیر سے نہیں، بلکہ پیسوں کی جاگیر سے ہی پروان چڑھتے ہوں، مولانا اور لا نا اور لا نا کی تسبیح پھیرتے ہوئے ،دین کو خود کے لئے ایک منافع بخش کاروبار بنا چکے ہوں،مردے کا کفن میلا ہونے سے بچانے والے ،ہر تازہ قبر کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوں،ادیب کا ادب بے ادب ،مصنف کی تصنیف حاکم کی توصیف اور شاعر کا ذوق سفلی جزبات کا طوق ہو،صحافی کا قلم کشکول بن جائے،تفریح کے نام پہ ایمان فراموشی کے تقریباً سبھی لوازمات ارزاں اور وافر دستیاب ہوں،چھوٹے پیار کے ترسیدہ اور بڑے عزت کے متلاشی ہوں،مسلط شدہ خواص کی ازلی سستی اور کاہلی سے بیماریاں سرعت کے ساتھ عوام الناس کو نگلتی جا رہی ہوں، حکومتی طبقہ اپنوں کو بے جا نوازنے او ر غیروں کو بلا وجہ دھتکارنے کا شغل فرمانے میں مصروف ہو، پینے کا پانی تو گندہ ہو ہی زہر تک بھی خالص نہ ملے، آکسیجن کی بجائے پھیپھڑوں میں گردو غبار کی بلا روک ٹوک آمد ورفت جاری و ساری ہو،سبزیوں کی بنیادوں میں مضر صحت کیمیکل ،کھادیں اور ان کی نگہداشت میں زہریلے سپرے شامل ہوں،مفکر مستقبل سے بے نیاز اور ماضی بھلکڑ ہوں، نوجوانوں کا پسینہ اور ڈِش انٹینا باہم مشروط ہوں،ستاروں پہ کمند ڈالتے ڈالتے فلمی ستاروں کی صف میں زقند لگانا ،ہر نوجوان طا لب علم کی اولین ذمہ داری بن چکی ہو،سب موجود ما ں ،باپ ،بہن ،بھائی ،پر سب آپس میں ، ہرجائی بن چکے ہوں،عفت عافیت کے لئے تڑپتی اور برہنگی چادر اوڑھے پھیل رہی ہو،لیکن پھر بھی اگر، ایسے معاشرے کی مجموعی عوامی فضا میں وہ ارتعاش پیدا نہ ہو سکے جو کہ منطقی طور پر کسی ایسے نقطے پر جا کر مرکوز ہوتا ہوجہاں سے عوام ایک قوم میں تبدیل ہونا شروع ہو جائیں،تو پھر ایسے معاشرے کی جنیّاتی ساخت میں یقیناً غلا م ابنِ غلام والی خُو بہت مضبوطی سے اپنی جڑیں پکڑے ہوتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں ایسے معاشرے کی تباہ حالی میں جو چند بڑے بڑے عوامل کار فرما ہوتے ہیں ان میں سے ایک غلامانہ اقدا ر کا نسل در نسل تسلسل بھی شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ جھنجھوڑنے ،پکارنے اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لئے دیگر بے شمار میں سے چند ایک یہی مندرجہ بالا لوازمات ہوتے ہیں،جو جب کسی معاشرے میں در آئیں تو فطری طور پر کسی مثبت اور فلاحی تحریک کے آغاز کے ساتھ، انقلاب کی راہ ہموار و استوارکرتے ہیں۔لیکن اگر ایسا نہ ہو یعنی انقلاب کے محرکات ہونے کے باوجود ،عوامی جذبات تلاطم خیز ثابت نہ ہو سکیں ،مجموعی فکری سمت بھی ڈانوں ڈول ہو، اور سب کچھ بد سے بد تر ہونے کے باوجود بھی اگر غلامانہ خماری نہ اترے تو پھرکیسا انقلاب اور کہاں کا انقلاب ،پھر تو بس مزید بربادیوں اور ضلالتوں کا صرف انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔ با لکل ویسا ہی انتظار جو اکثر ایسے معاشروں کے رہنے والے ،بیرونی حملہ آوروں کی آمد پران کو پھولوں کے ہار پہنانے کے سلسلے میں کرتے تھے۔بہرحال شرح خواندگی کی شرمناک سطح اور غیرت و حمیت والی قیادت کا فقدان، ایسے معاشرے کے افراد کی پست ذہنیت کو مزید مہمیز کرتاہے۔ نتیجتاً جہالت کا سمندر ہر طرف موجیں مارتا نظر آتاہے۔ چناچہ رنگ ،نسل ، صوبائیت،لسانیت،ذات ،برادری،مذہبی اور مسلکی فرقہ بندی، بڑے بڑے پریشر گروپوں میں گرو ہ در گروہ کئی مزید چھوٹی چھوٹی اکائیاں، روز افزوں معاشی تفاوت اور عدم برداشت کی روایات پہ مشتمل ، عوامی تقسیم در تقسیم کا گویا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ،کچھ ایسے پروان چڑھتا ہے جو کہ ،معاشرے کو تہذیب وتمدن کی اعلیٰ خصوصیات سے یکسر عاری کر کے ایک ایسا ماحول بنا دیتا ہے ،جس کی ایک ہلکی سی جھلک ابتدائیے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
تمھاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہِ سیاہ میں ہے
طبقہ اشرافیہ میں شامل ہر قسم ،ہر پیشے اور ہر نسل کے لوگوں کے مفاد ات چونکہ ایک جیسے ہوتے ہیں لہٰذا وہ ان کے تحفظ میں یک جان کئی قلوب کی طرح ہوتے ہیں، اور اپنے تمام معاشی اور معاشرتی معاملات میں ایک دوسرے کا دل و جان سے بڑھ کر خیال رکھتے ہیں۔ مذہبی فرقہ بندی ہو یا پھر مختلف النوع برادریاں ،ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں،اور یہ طبقہ آپس میں شادیا ں کر کے بھی اپنی زمینیں ،جائیدادیں ، اور کاروبار محفوظ بناتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر اپنے ہی بندوں کو فائز کروایا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف لسانی ،گروہی ،مسلکی ، اورنسلی وجوہات کی بنا پر، عوام کثیرتعداد میں ہونے کے باوجود بھی، اپنے وجود کو پارہ پارہ کئے ہوئے ہوتے ہیں اور خود کو تقسیم کرنے والوں کو پہچاننے میں بھی اکثر قاصرہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی جہالت ہی ہے۔
سیّدنا حضرت علی کرَّمَ اللہ وجہہ ‘ کا فرمان ہے ’’جہالت ایسی بلا ہے جو زندوں کو مردہ کر دیتی ہے اور ہمیشہ بد بختی میں گرفتار رکھتی ہے‘‘۔ لہٰذا کسی بھی معاشرتی بگاڑ کا ایک سب سے بڑا اور اہم ترین محرک جہالت ہی ہے ،جس کا خاتمہ حصولِ علم سے ہی کیا جا سکتا ہے،وگرنہ جہاں جہالت ہو گی وہاں منافقت کی مدح سرائی اور مخاصمت کی پزیرائی میں ہی لوگ الجھے رہیں گے ، اور اس کا منطقی نتیجہ عوام پہ ہمیشہ نا عاقبت اندیش اور موقع پرست افراد کی حکمرانی کی صورت میں ہی سامنے آتا رہے گا۔ایسے حکمران کہ جن کے سحر میں مبتلا عوام، ان حکمرانوں کی توانائیوں کو تقویت پہنچانے ،اور انکے اقتدار کو دوام بخشنے کی مزید سبیلیں پیدا کرنے کے ساتھ، ان تمام عوامل کے وقوع پزیر ہونے کا مستقل باعث بھی بنتے رہیں گے ،جو کسی بھی معاشرے کو زوال کی طرف تو ما ئل کر سکتے ہیں انقلاب کی طرف ہر گز نہیں۔
____________________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں