میں نے تنگ گلی میں اس پرانے طرز کی تاریک رہائش کو حیرت سے دیکھا۔ مجھے شک گزرا کہ میں صحیح پتہ پر پہنچا بھی یوں یا نہیں؟ کیوں کہ میں اس علاقے کے سب سے بڑے استاد سے ملنا چاہتا تھا۔ پوچھنے پر ہر ایک نے یعقوب صاحب کا نام لیا اور بتا یا کہ ان کے زیادہ تر سٹوڈنٹ بیوروکریسی میں بیٹھے ہیں یاپھر فوج میں، چند ایک نے سیاست میں بھی نام کمایا ہے اور کچھ پنجاب پولیس کے روح رواں ہیں۔ غرص اس ملک کا کوئی سرکاری اور نجی ادارہ ایسا نہیں جہاں ان کے تراشے ہوئے ہیرے موجود نہ ہوں۔ ایسے قابل استاد کا گھر ایک بدبودار علاقے کی ایک تاریک تنگ گلی میں ہو گا ،سوچا نہ تھا۔
کچھ ناگواری کے ساتھ ناک پر رومال رکھ کرمیں نے دروازے کی کنڈی کو پکڑ کر کھٹ کھٹا دیا کیونکہ وہاں ڈوربیل نامی کوئی چیزنہیں تھی۔ کچھ دیر میں ایک سلجھی ہوئی عمر رسیدہ خاتوں جن کا چہرہ تمانت سے چمک رہا تھا دروازہ پر آئیں۔ سلام دعا کے بعد مجھ سے آنے کا مقصد پوچھا میں نے عرض کی کہ استاد یعقوب صاحب سے ملنے آیا ہوں تو انہوں نے ڈرائنگ روم نما کمرے کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کو کہا اوربتایا کہ ماسٹر جی پنشن نکلوانے گئےہیں ، ابھی ٓتے ہی ہوں گے تب تک آپ کیلئے چائے بلاتی ہوں۔
میں ایک شکستہ حال کرسی پر بیٹھ گیا کیونکہ کمرے میں کوئی صوفہ موجود نہ تھا ۔۔ چند کرسیاں اورایک پرانا سا میز اس کے علاوہ دیواروں پر موجود سیمنٹ بھی اب دیوار کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ نامناسب روشنی کی وجہ سے کمرہ میں گھٹن سی ہو رہی تھی، اندھیرے میں کچھ دیکھنے کے قابل ہوا تو دیوار پر کچھ احادیث لکھی نظرآئیں۔ وقت گزارنے کے لیے انہیں پڑھنا شروع کیا ،پہلی حدیث جس پر نظر پڑی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ”بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے” ایک اور حدیث مبارکہ پر نظر پڑی جویہ تھی ” سیکھنے والے بن جاؤ یا سکھانے والے اس کے علاوہ تیسرا کوئی رستہ اختیار نہ کرو” اتنے میں بوڑھی خاتون خود چائےہاتھوں میں اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا اور بے ساختہ منہ سے نکلا کہ” آپ کسی بچے کے ہاتھ بھیج دیتیں خود کیوں زحمت کی” خاتون یہ سن کر ٹھٹک سی گئیں ، جھریوں والے چہرے پر تاریکی ہونے کے باوجود ایک کرب کی لہر میں واضح دیکھ سکتا تھا۔ جسے انہوں نے ایک مسکراہٹ سے چھپاتے ہوئے کہا کہ بچے تو کب کے ہم تینوں کو چھوڑکر چلے گے۔ میرے منہ سے نکلا تینوں؟ تو انہوں نے ڈوپٹہ کے پلو سے گرتے ہوئے آنسو ؤںکو صاف کرتے ہوے کہا “ہاں مجھے، ماسٹر جی کو اور ہماری غربت کو”۔
میرادل دہل سا گیا کہ کیا بچے اپنے والدین کو غربت کی وجہ سے بھی چھوڑ سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے قابل استاد کو؟ اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ماں جی نے کہا استاد جی آ گئے۔ استاد جی نے اپنی پرانی سائیکل کو دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور ماں جی کے بتانے پر مجھ سے ملنے اندر چلے آئے۔ درمیانہ سا قد، بوسیدہ مگر صاف کپڑے ، پرانی چپل، آنکھوں پرعینک مگر شیشے پرانے ہونے کی وجہ سے دھندلائے ہوئے۔ میرے اندر کی گھٹن بڑھ گئی ،میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہ مقام دیا معاشرے نے ایک استاد کو ،جس نے اپنی جوانی معاشرے کے نوجوانوں کو سنوارنے میں گنوادی۔ اپنی بینائی بچوں کی لکھائی خوبصورت بنانے میں گنوا بیٹھا۔
میرا حال چال پوچھنے کے بعد ماسٹر جی نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں ۔بتانے لگے کہ ایک تو مالک مکان نے کرایہ کا شورڈالا ہوا ہے اوپر سے بینکوں میں پنشن لینے کیلئے لمبی لائن وہ بھی بغیر سایبان کے اور اوپر سے اس عمر میں سائیکل کا ہی بس سہارا ہے۔یہ ساری باتیں وہ ایک مسکراہٹ چہرے پر سجائے کر رہے تھے۔ میں نے درمیان میں پوچھا کیا آپکو کبھی دکھ ہوا یا پیشمانی کہ آپ تدریس کے شعبے میں آگئے؟ تو مسکرا کر کہتےہیں یہ پیغمبروں کا پیشہ ہے ،ایک مقدس پیشہ ہے۔ کوئی کاروبار نہیں ۔تو میں نے کہا اس نفسا نفسی کے دور میں ہر ایک کا دل کرتا ہے اسکا اپنا گھر ہو، گاڑی ہو، ہر طرح کی سہولیات بھی ہوں تو استاد جی نے کہا اس کائنات کو خدا نے ایک تکون کی شکل میں پیدا کیا ہے جس کے ایک کونے میں انسان، دوسرے پر خدا اور تیسرے پر کائنات ہے۔ ساری کائنات انسان کیلئے مسخر ہے اور اگر انسان اسی کائنات کے سامنے جھک جائے تو یہ مقام انسانیت کی توہین ہے کیونکہ وہ اپنے سے کمتر کو سجدہ کرتا ہے۔ اور اگر انسان اپنے سے برتر یعنی اپنے خالق کو سجدہ ریز ہو تو اقبال بھی کہہ اٹھتا ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہ بات سن کر میری گھٹن کم ہونے لگی۔ ناک سے لگا رومال نیچے آگیا اور اس استاد کی باتوں کی خوشبو سے میرا باطن مہک اٹھا۔آنکھوں پر چھائی تاریکی چھٹنے لگی۔ مجھے اپنے تمام استاد یاد آنے لگے۔ جن کے پاس میں پڑھا اور کبھی پلٹ کر حال تک نہ پوچھا ۔وہ بھی تو معاشرے کے استاد ہیں جنہوں نے مجھے کسی قابل بنایا اور مجھ جیسے ہزاروں کو بھی اور ہم نے بھی اس شہر کے سٹودنٹس کی طرح کبھی یہ تک دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ وہ کس حال میں ہیں؟ اگر ان کے بچے نہیں تو ہم بھی توان کے بچے ہیں ،کیا ہوا اگرسابقہ حکومتوں نے انہیں یتیموں کی طرح لاوارث چھوڑا دیا ہے تو کیا ہم اپنے طور پر کچھ کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ایسے اپنے عظیم اساتدذہ کے لیے کچھ کرنےکو تیار ہیں؟ کیا معاشرے کی گھٹن کم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا سجدہ عظیم کرنے کے لیے بھی تیار ہیں؟ ذرا سوچیئے۔۔۔
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔