دوروز قبل لگ بھگ تمام ٹی وی چینلز پر وزیر اعظم عمران خان کا پہلا ٹی وی انٹرویو نشر ہواجسے دیکھ کر یہ واضح ہوگیا کہ عمران خان پہلا وزیر اعظم جس کی نظر میں تمام چینلز اور صحافی برابر ہیں۔مختلف چینلز کی نمائندگی کرنے والے صحافی اور اینکراعتماد سے انکھوں میں انکھیں ڈالے سوالات کر رہےہیں ۔یہ ایک ایسا منظر تھا کہ عمران خان خود صحافیوں کی عدالت کےکٹہرے میں موجود ہیں اور جوابدہ ہیں۔واضح رہے کہ ماضی میں اعلی صحافیوں کو موضوع اور ان کے جوابات دئیے جاتے تھے۔جس کے بعد لفافے بھی دئیے جاتے تھے۔ نیریٹوضرور بنائے جاتے تھے۔ حکومت کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کی تاکید کی جاتی تھی۔ ایسے صحافیوں کو ایک ساتھ برابری کبھی نہیں دی گئی۔ جہاں حامد میر بھی ہیں تو سعدیہ افضال بھی،عمران، کامران شاہد ، پیرزادہ اور صابر صاحب بھی۔۔ ۔غرض کہ جیو، اے آر وائے، ایکسپریس، دنیا اور باقی سب بھی برابر۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودوایاز۔۔۔
نہ کوئی لفافہ رہا نہ کوئی لفافہ نواز۔۔۔
اب کچھ بات کرتے ہیں صحافی حضرات کے اہم سوالات کی جس میں مرغی انڈوں کی بھی مثال برازیل سے دی گئی کہ وہاں سالانہ سات ارب ڈالر مرغیوں اور انڈوں سے کمائے جاتے ہیں، اس عمل کو سراہا گیا۔لیکن حیران کن بات یہ بھی ہے کہ بہت سے سوالات پر وزیر اعظم کہ منہ سے یہ ہی نکلا کہ ٹی وی سے ان کو پتہ چلا۔ یعنی الیکٹرانک میڈیا۔ کیاالیکٹرانک میڈیا واقعی اتنا با اثر ہے؟ دوسری طرف سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے باقی وزیر ان کو یعنی وزیر اعظم آف پاکستان کو ہی حقائق سے آگاہ کرنا گوارہ نہیں کرتے؟
ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر کی بات پر بھی عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ بات ان کے علم میں نہیں رہی ۔
اعظم سواتی کیس پر بھی وزیر اعظم نے لا علمی کا اظہار کیا۔ دوسری جانب کپتان کا کہنا تھا کہ 100 دن کی کارکردگی کی بجائے تمام توجہ ڈالر کی قیمت میں اضافے پر ڈالی گئی۔ ایک بڑی اہم بات یہ بھی تھی کہ خان نے وقت سے پہلے الیکشن کی بات کی۔ یہ ایک اشارہ تھا کہ آنے والے دنوں میں پلان یہ ہے کہ کرپٹ حکمران کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہو گا۔ اب ہوگا کیسے؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
بشریٰ سحرین ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرچکی ہیں اور گزشتہ آٹھ سال سے صحافت کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو اور مختلف ٹی وی چینلز پر ہزاروں پروگرامز کی میزبانی کر چکی ہیں۔ اب لکھنے کا باقاعدہ آغاز کر رہی ہیں۔