اسلامی تاریخ کا پانی کے لیے پہلا فنڈ۔۔۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو پانی کا واحد کنواں ایک یہودی کی ملکیت تھا جسے خریدنے کے لیے نبی پاکؐ نے فنڈ کی اپیل کی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی جو حضرت سیدنا عثمان نے کنواں خرید کرمسلمانوں کے لیے وقف کردیا ۔اگرایسا کہا جائے کہ پانی کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا سنت ہے تو یہ قطعی غلط نہ ہوگا۔
پانی ایک لازوال نعمت ہے پانی احتیاط سے استعمال کیجیے، پانی زندگی ہے یہ باتیں عوامی مقامات سمیت پانی کی موجودگی والی سبھی جگہوں پر اکثرو بیشتر دیکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ہم چلتے پھرتے انہیں پڑھتے ہیں لیکن عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں کہ ” گلوبل وارمنگ ” جیسے عناصر کے باعث دنیا بھر کے ماحول میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ۔ایسے میں موسم میں ہونے والی تبدیلیاں ملکی و قومی سطح پر بھی اقدامات کرنے کی متقاضی ہیں ۔تاکہ ملک میں پانی کی ہونے والی شدید کمی پر بروقت قابو پایا جاسکے ۔ پانی سے براہ راست اثر انداز ہونے والے عوامل جن میں زرعی زمینوں کا بنجر ہونا اور پھر فصلوں کی کم پیداوار سے خوراک کی کمی جیسے مسائل اس سے بڑھ کر یہ کہ پینے کے لیے پانی کا ناکافی ہو جانا شامل ہے ۔ان کے لیے متبادل تو نہیں بلکہ حفاظتی اقدامات بھی نہیں کئے جاتے ہیں جن سے ان مسائل سے نمٹنے میں مدد مل سکے ۔موجودہ ملکی صورتحال میں بڑے حل طلب مسائل میں ایک مسئلہ پانی کے بحران کا ہے ۔پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔
” پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز ” کے مطابق 2025 تک پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ بدترین خشک سالی کی شکل اختیار کرجائے گا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ 1990 ء کی دہائی میں ہی دباؤ کی لکیر عبور کرچکا تھا جب کہ 2015 ء میں پاکستان پانی کی کمی کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا ملک بھر میں دستیاب 142 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 42 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال ہورہا ہے باقی 100 ملین ایکڑ فٹ ضائع ہو رہا ہے ۔
دنیا کے بہت سے حصوں میں تازہ پانی خاص طور پر پینے کے قابل پانی کی قلت ہے اگر پانی دستیاب ہے بھی تو وہ آلودہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا 80 فیصد پانی آلودہ ہے ۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر صورت حال جوں کی توں رہی تو مستقبل قریب میں پاکستان پانی کی شدید کمی کی وجہ سے قحط سالی کی صورتحال سے دوچار ہوجائے گا ۔ پاکستان 138 ممالک میں 36 ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے معیشت ،عوام اور ریاست شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
اب جو سلسلہ چل پڑا ہے کہ ڈیم بناؤ پاکستان بچاؤ یا یقینی طور پر اچھا قدم ہے ملک کی اعلی عدلیہ سمیت اہم اداروں نے رضاکارانہ بنیادوں پر نئے ڈیمز کی تعمیر کے لیے باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ ہوسکے ۔اس میں عوام سے بھی رضاکارانہ بنیادوں پر حصہ ڈالنے کی اپیل کی گئی ہے امید کی جارہی ہے کہ ایسے اقدامات سے کم سے کم پانی کے بحران جیسے بڑے مسئلے سے جان بخشی ممکن ہو سکے گی ۔
دوسری جانب تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں پانی کے ذخائر مناسب تعداد اور ضرورت کے برعکس ہونے کے باعث پانی کے بحران جیسے بڑے مسئلے کا اندیشہ ہمیشہ مملکت پاکستان پر منڈلاتا رہتا ہے ۔منگلا ڈیم اور تربیلا جیسے بڑے منصوبوں کے بعد کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنایا گیا بڑے ڈیموں کے علاوہ چھوٹے ڈیموں میں بھی پانی کی سطح کم ہو چکی ہے ان سے کچھ طبقات کا روزگار بھی وابستہ ہے ۔انفرادی سطح پر ہم سب کو پانی جس قدر ہوسکے بچانا چاہیے آپ کو معلوم ہے ہم پانی کا آدھا گلاس حلق سے اتارنے کے بعد بچہ پانی زمین کی نظر کرکے اس سے زمین بوس پانی کی نظر میں شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں لیکن ہم اس شرمندگی کو محسوس کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، پانی کو بچائیں کہ یہ آپ کی زندگی کو بچائے گا ۔
صبا ادریس فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہیں اور فائن آرٹس میں ماسٹرز کر رکھا ہےآجکل درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ مصوری میں کمال رکھتی ہیں اور ضلع کی سطح پر بیشتر مقابلے جیت چکی ہیں سماجی اور انسانی ہمدردی کے کاموں میں بھی شریک رہتی ہیں۔The Knowledge Academy کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہی ہیں بہت سے ایونٹ آرگنائز کروا چکی ہیں اور ٹرینر کےطور پر کام کر رہی ہیں۔