معاشرتی تفرقات اور ہمارا نظام تعلیم ، تحریر:مہرین جمیل

ہمارے ملک کے بہت سے مسئلے ہیں ، ترقی پذیر ملک ہے تو سب ٹھیک ہونےمیں ٹائم تو لگے گا،جس کیلئے ہمیں ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا، جو سب اتنے عرصے میں خراب ہوا تو اس نظام کو ٹھیک ہونے میں وقت درکار ہے، آج کل نئی حکومت پر کچھ لوگ تنقید کررہے ہیں جبکہ کچھ بہت پُر امید ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وقت کس کے حق میں فیصلہ کرے گا، جب تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ کیا لکھے گاکہ پُر امید بے وقوف تھےیا پھر مایوسی پھیلانے والے غلط راستے پر تھے،کیوں کہ صحیح اور غلط کا فیصلہ صرف وقت ہی کر سکتا ہے۔
ہمارے ملک کے بہت سے مسائل میں سے ایک اہم اور حساس مسئلہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے ہیں، یہ وہ بچے ہوتےہیں جو شاید عام بچوں کی طرح تعلیم میں بہت ہوشیار نہیں ہوتے،عموماً دیکھنے میں یہ ہی آتا ہے کہ جوبچہ نہیں پڑھتا اورجس بچے کوگھرکا شرارتی یا بدتمیز بچہ کہہ سکتے ہیں جو ہمارے مطابق نہیں چلتا ہم اسے مدرسے میں مولوی صاحب کےپاس چھوڑ آتے ہیں اور اپنی جان بخشی کروا لیتے ہیں کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا، کہ دنیاوی نہ سہی بچہ دینی تعلیم تو حاصل کر رہا ہے، پھر بچہ حافظ بن جائے گا تو اپنے ساتھ گھر والوں کو بھی جنت میں لے جائے گا اور بحیثیت مسلمان کے یہ ہماری سب سے بڑی خواہش ہے جو ہمارے مطابق ہمارا نالائق بچہ پوری کرے گا۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک الگ خوبی دی ہے ضروری نہیں کہ ہمارا بچہ A+لےکر آئے اور 100فیصد ہمارے مطابق چلے،ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کام میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہو جیسے کہ موسیقی، ڈرامہ و اداکاری یا کھلاڑی جس کا تعلق ہمارے روایتی تعلیمی نظام سے نہ ہو ، ہوسکتا ہے کہ بچہ شیف بننا چاہتا ہولیکن ہم اپنے بچے سے پوچھنا گوارہ نہیں کرتے ، یہاں ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تعلیم کے علاوہ بھی انسان ہنر مند ہوسکتا ہے، دنیا میں ایسی بےشمار مثالیں ہیں جہاں کامیاب ترین لوگ سکولوں سے بھاگے ہوئے یا بے حد نالائق بچے تھے، لیکن قدرت نے انکو کچھ الگ خاصیت دی تھی ۔ صرف روایتی تعلیم حاصل نہ کرنا نالائقی نہیں ہے، ہم نے زندگی کا معیار ہی روایتی تعلیم کو بنا لیا ہے۔
یقین مانیے کہ انسان اگر ڈاکٹر،انجینئر،سائنسدان یا استاد نہیں بنتا تو وہ تب بھی انسان ہی رہتا ہے،خدارا ان بچوں کو وقت دیں جو عام بچوں جیسے رٹے رٹائےطوطے نہیں ہیں تاکہ ہمیں ان کے اندر کا ہنر سمجھ آسکے،ہم ان کی مدد کریں نہ کہ ان کو حالات کے رحم کو کرم پر چھوڑ دیں اور اگر مدرسے کےتعلیمی نظام کی بات کریں تو وہ ہم سب جانتےہیں کہ زیادہ تر مدرسوں میں بچوں کے ساتھ کیسا سلوق کیا جاتا ہےاور حافظ بنایا جاتا ہے،میں حافظ بننے کے خلاف نہیں،ہاں!زبردستی حافظ بنانے کے اور حافظ بنانے کے طریقے سے اتفاق نہیں کرتی، جوبچے شوق سے حفظ کریں یا واقعی قابل ہوں ، جن پر نالائقی کا ٹیگ نہ ہو وہ جائیں پڑھیں،حفظ کریں، اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔
مدرسے کے نظام کی بات کریں تو اس نظام کی خرابی کے ذمہ دار کافی حد تک ہم لوگ خود ہیں اور حکومت کی عدم توجہی ہے،کیوں کہ زیادہ تر مدرسوں میں دنیاوی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا،اس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کو یکساں مواقع مہیا ہو سکیں۔ سب سے اہم بات یہ کی جب بچے خدا خدا کرکےحصولِ تعلیم کے بعد مدرسوں سے نکلتے ہیں تو ان کے پاس آگے بڑھنے کےکیامواقع ہیں؟کون سی نوکری کریں،کدھرجائیں؟اور اگر امام مسجد کی نوکری ملتی بھی ہے تو وہ کس طرح اپنا گزربسر کرتے ہیں اور ان کا کیا سکیل ہے؟وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ظاہر سی بات ہے یہ لوگ بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں، ان کی ضروریاتِ زندگی بھی باقی انسانوں کی طرح ہیں، ان کو بھی اچھا گھر،گاڑی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی مہیا ہونی چاہیے،ان کے پاس فرقہ واریت یا ایک دوسرے کیخلاف جانے کے کیا آپشن بچتا ہے، کبھی ہم نے غور کیا کہ ہر سال اتنے بچے مدرسوں سے نکلتے ہیں کہاں جاتے ہیں؟ کیوں کہ ضروریاتِ زندگی بڑھنے پران کےپاس فرقہ واریت کےعلاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا،تاکہ ان سے منسلک افراد کی تعداد میں اضافہ ہو اور ذریعہ آمدن اسی طرح بڑھتا رہے۔تو بتائیں!!!کیا ہمارا معاشرہ اور حکومت ان بچوں کےقصوروارنہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ہر سکول میں دیگر اساتذہ کی طرح دینی معلم بھی تعینات کریں جو نہ صرف بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیمات دیں بلکہ ایک اچھا انسان بننے اور اسلام کے اصول سمجھائیں جو کسی بھی مسئلے یا فرقے کو بالائے طاق رکھ کر ہوں ،تاکہ ہم اچھے انسان بن سکیں، آج اسلام سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی کیا حالت ہے وہ ہم سب جانتے ہیں، ہم انسانیت، ہمدردی،خداخوفی سب بھول چکے ہیں،نفسانفسی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی، لالچ،پیسہ اور تکبر کے ہم اسیر ہیں،ہم سب کو اسلام سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہےکیوں کہ دنیا تو جیسے تیسے گزر جائے گی لیکن آخرت میں ہم سب جوابدہ ہیں،اللہ ہم سب کی مدد فرمائے۔


مہرین جمیل سپیرئیر یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان دنوں روہی نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کام کررہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں