مثل ریاست مدینہ،کیا ہم تیار ہیں؟ تحریر: شیخ محمد موسیٰ

گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر سابق حکومت کے ایک رہنما سیاسی گفتگو کر رہے تھے۔ گفتگو کیا تھی موجودہ وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کے نشتر برسارہے تھے۔۔ ان کے مطابق پاکستان میں مدینہ جیسی ریاست کا قیام عمل میں لانا عمران خان کے لیے نا ممکن ہے۔موصوف کی شعلہ بیانی اور آواز میں گھن گرج کچھ اس طرح کی تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے ان کے دورمیں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پیتے رہے ہوں اور عمران خان نے آتے ہی سب کچھ بدل ڈالا ہو۔ محترم کی حکومت میں جو سہولیات عوام کو میسر تھیں وہ سب کچھ موجودہ حکومت نے چھین لیا ہو۔ خیر اپوزیشن کا تو کام ہی ہر بات پر تنقید کرنا ہے۔
چند روز قبل ایک مذہبی جماعت کے رہنما کو سنا۔وہ بھی ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہی نظر آئے۔ کہنے لگے کہ اگر پاکستان بھی مدینہ کی ریاست جیسا بن جائے تویہ عمل بہت خوشگوار ہوگا۔مگر مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے یہ رہنما بھی عمران خان پر اعتماد کرتے نظر نہ آئے۔کہنے لگے کہ سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والاشخص کس طرح مدینہ کی ریاست کے لئے جستجو کر سکتا ہے۔یہ کام تو صرف مذہبی جماعت ہی کر سکتی ہے۔ اس لئے آئندہ انتخابات میں آپ کسی سیاسی جماعت کو منتخب کرنے کی بجائے صرف ہمیں ووٹ دیں۔
وہاں سے نظر ہٹی تو ایک مشہور و معروف کالم نگارکو پڑھنے کا موقع ملا جن کا یہ موقف تھا کہ جمہوری عمل کے ہوتے ہوئے پاکستان میں مدینے جیسی ریاست کاقیام نا ممکنات میں سے ہے۔صاحب نے اپنی تحریر کے ذریعے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک لیڈر جو محض چند سالوں کے لیے منتخب ہوکر برسراقتدار آتا ہے،جسے ہر وقت یہی خوف گھیرے رکھتا ہے کہ کہیں اسکی کرسی نہ چھن جائے۔ وہ کس طرح پاکستان میں مدینہ کی ریاست کی لئے تگ و دوکرسکتا ہے۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے اپنی ذات کو مار کر مدتوں دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر تبدیلی کی کونپل پھوٹتی ہے۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ،،مگر ایک خیال کہ جس نے میرے ذہن میں دھماکہ کر دیا وہ یہ تھا کہ کیا ہم بحیثیت ایک قوم کے مدینے جیسی ریاست کے قیام کے لئے تیار ہیں۔ وہ اصول، وہ قوانین ،وہ سزائیں جو مدینہ کی ریاست کے آئین کا حصہ تھیں۔وہ آئین جومدینہ میں متعارف کروایا گیا اور اس کا عمل مدینے کی ریاست میں یقینی بھی بنایا گیا۔ کیا آج کے پاکستان میں وہ آئین نافذ العمل ہے؟ کیاآج کا پاکستانی جو پاکستان کے آئین کا احترام نہیں کرتا وہ مدینے کے آئین کو اپنانے کے لئے تیار ہے؟
اب کچھ نظر ڈالتے ہیں اس عظیم ریاست پر کہ جس کی مثال پاکستان کو بنانے کے دعوے اور باتیں کی جاتی رہیں ہیں۔۔۔
قران حکیم میں مختلف مقامات ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
1۔میرے محبوب میرے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ باظل پر بڑے شدید ہیں۔آپس میں انتہائی محبت کرنے والے ہیں۔
2۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجات کو قربان کرکے دوسروں کی حاجات کو پورا کرتے ہیں۔
3۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں۔
4۔جو تنگی اور فراختگی میں خرچ کرتے ہیں۔اور غصے کو پی جاتے ہیں۔اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں
5۔زمین پر بڑی عاجزی سے چلتے ہیں۔
6۔جب ان پر کوئی زیادتی والی بات کرتا ہے تو یہ سلامتی والی بات کرتے ہیں۔
7۔یہ خرچ کرنے میں احتیاط کرتے ہیں،نہ اصراف کرتے ہیں نہ بخل کرتے ہیں۔
یہ وہ چند آیات ہیں کہ جن کی روشنی میں مدینے کی فلاحی ریاست کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب کچھ بات کرتے ہیں آج کے پاکستان کی،جہاں ہر شخص جھوٹ بول رہا ہے، اقتدار کے ایوانوں سے لیکر سڑک کنارے لگی ریڑھی تک ہر شخص غلط بیانی میں مصروف ہے۔دھوکہ دہی کو آج کی دنیا میں پریکٹی کیلیٹی (practicality)کا نام دے دیا گیا ہے۔جو شخص کام نکلتے ہی آنکھیں بدل لے، وہ ہوشیار ہے چالاک ہے۔ آج امت محمدیہ میں شائد ہی کوئی ایسی برائی نہ ہو جو پچھلی تمام امتوں میں گذری ہیں۔رشوت ستانی،سفارش،زنا، شراب نوش،چوری،ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی، عدم برداشت،لڑائی جھگڑا، بے پردگی،سود، جھوٹی گداگری، نا انصافی،سفاکیت، قتل و غارت آج عام سی بات ہوگئی ہے۔ اور یہ تمام برائیاں دین سے دوری کے باعث ہیں۔عدالتوں کا یہ حال ہے کہ آپکی کچہریوں میں جھوٹا گواہ محض پانچ سو روپے کے عوض دستیاب ہوتا ہے۔زنا کو آج فیشن بنا دیا گیا ہے۔۔ جو اس گناہ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے وہ دوست احباب کی جانب سے نامرد قرار دے دیا جاتا ہے۔۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ دل سے نہ سہی مگر دنیا دکھاوے کیلئے ہی زنا جیسے بدترین گناہ کے پاس جاتے ہیں۔
زنا کے حوالے سے ہی مزیدبات کریں تو آج ہم جنس پرستی کا رجحان بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ وہ گناہ ہے کہ جس کے باعث حضرت لوطؑ کی قوم کو عذاب پہنچایا گیا تھا۔ان تمام جرائم پر مدینے کی ریاست میں سخت سے سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔چوری پر ہاتھ کاٹ دیے جاتے تھے ،زنا پرگردن اڑا دی جاتی تھی۔ یہاں مجھے ایک صاحب کی بات یاد آئی۔ کہنے لگے کہ موسیٰ بھائی اگر مدینے کی ریاست واقع قائم ہوگئی تو 22کروڑ میں سے 15کروڑ تو ٹونڈے ہو جائیں گے اور 5کروڑ اپنی گردن کٹوا بیٹھیں گے۔ایسے میں پاکستان میں کام کون کرے گا؟ یہ کہہ کر وہ خود تو ہنسنے لگا مگرمیں گہری سوچ میں مبتلا ہوگیا۔ چند سوالات میں ذہن میں بسیرا کرگئے کہ کیا واقعی ہم پاکستان کو مدینے جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں؟
کیا ہمارے حکمران واقعی ان سزاؤں پر عمل درآمد کرواسکیں جو مدینے کی ریاست میں دی جاتی رہیں، جبکہ وہ خود بھی ان برائیوں سے پاک نہیں ہیں؟
جس معاشرے میں زنا جھوٹ اور قتل و غارت جیسی برائیاں عام ہوگئیں ہوں وہاں کیامدینے جیسی فلاحی ریاست کا قیام کیا آسانی سے ممکن ہے؟یقیناًنہیں۔ جس ریاست کے قیام کے خواب ہمارے حکمران دیکھ رہے ہیں وہ اتنی آسانی سے وجود میں نہیں آسکتی جتنا سمجھا ،یا سمجھایا جا رہا ہے۔۔۔ اسکے لئے نسلوں کی محنت درکار ہے۔ جیسا کے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا۔۔۔
“ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے،،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا”
آخر میں دعا اورامید یہی ہے کہ اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائے اور ہمارے معاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کردے اور اس ارض پاک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔۔۔(آمین)


شیخ محمد موسیٰ چینل 42سے بطور نیوز کاسٹر منسلک ہیں ، ان کے کالم ’’متاع زِیست‘‘ کے مستقل عنوان سے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں