تاریخ کے دریچوں میں بعذ اوقات ایسے واقعات رقم ہوتے ہیں جن پر بات کرنا باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ بھی انہی سیاہ بابوں میں سے ایک باب ہے۔ 1971 میں ہونے والے واقعے کی کڑیاں 1947 میں آزادی کہ دن سے ہی ملتی ہیں جب قائد اعظم محمد علی جناح کی صوبائیت کے حاتمے کی تقریر میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کا کہا گیا۔ آزادی کے وقت بنگال کی تقسیم عمل میں آئی جس کے نتیجے میں ڈھاکہ، چٹاگانگ، سلہٹ سمیٹ بنگال کا مشرقی حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ مشرقی بنگال کے تین اطراف بھارت جبکہ جنوب میں حلیج بنگال تھا۔ مشرقی اور مغربی حصے میں 1000 میل کا فیصلہ تھا جو ایکا پیدا کرنا میں ایک دشواری ثابت ہوا۔
1948 میں بنگالی کو مادری زبان بنانے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ پورے بنگال میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو سرکاری حیثیت دینے پر مظاہرے کیے گئے۔ 1952 اسی قسم کے احتجاج میں جھڑپوں کے دوران کئ بنگالی طلبہ شہید ہوئے جن کی یاد میں آج تک دنیا بھر میں 21 فروری کو “عالمی دن برائے مادری زبان” منایا جاتا ہے اگرچہ آئین میں ترمیم کرکے بنگالی کو سرکاری زبان کا درجہ تو دیا گیا لیکن اسکی ترویج وترقی کے لیے کو حاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ زبان کے علاؤہ وسائل کی فراہمی میں بھی مشرقی پاکستان کو پیچھے رکھا گیا. آبادی کا 54٪ ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان کا بچٹ مغربی پاکستان کے مقابلے میں نصف سے بھی کم دیا جاتا رہا یہاں تک کہ فوج میں صرف 5٪ بنگالی تھے۔ رہی سہی کثر ایوب خان کہ مارشل لاء (1958-1969)نے پوری کردی چونکہ ایوب خان کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا تو وہ ڈکٹیٹر کے ستم کو اپنے اوپر بطور ستم لیتے تھے۔ بنگالی تہزیب مغربی پاکستان سے محتلف تھی جہاں مغربی پاکستان میں اسلام عزت وجان کامسئلہ تھا وہیں بنگالی اپنی قدیم تہزیب سے منسلک تھے۔ انہی جنبشوں میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا بول بالا ہوا جس کا سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن تھا۔
عوامی لیگ بنگالی عوام کی آواز بنی۔ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان کو بااحتیار کرنے کے لیے چھ نکاتی فارمولا پیش کیا جسے مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے ملک توڑنے کی سازش قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ 1969 ذولفقار علی بھٹو اور دیگر جماعتوں نے ایوب خان کے خلاف زبردست تحریک چلائی جسکے دباؤ میں آکر ایوب خان نے استعفیٰ تو دے دیا لیکن اسکی جگہ یحییٰ خان برسرِ اقتدار آگئے۔ 1970 میں مشرقی پاکستان میں زبردست قسم کا سمندری طوفان آیا جسکے نتیجے میں 5 لاکھ سے زائد افراد لقمائے اجل بن گئے۔
حکومت کی امدادی کاموں میں سستی نے صرف احساس محرومی میں اضافہ کیا بلکہ پڑوسی ملک بھارت کو مشرقی پاکستان کی عوام کا ہمدرد بننے کے برابر موقع فراہم کیے۔ 7 دسمبر 1970 میں ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات ہوئے جس میں قومی اسمبلی کی کل 300 نشستوں میں سے مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے 160 نشستوں حاصل کرکے اکثریت حاصل کی جبکہ ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی محض 81 نشستیں حاصل کر سکی۔
یحییٰ خان اور پیپلز پارٹی کی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ مشرقی پاکستان کی کوئی جماعت مرکز میں حکومت بنائے جسکی وجہ سے منتخب اسمبلی کا اجلاس تعطل کا شکار ہوا جس سے مشرقی پاکستان میں ایک نئی سول جنگ کا آغاز ہوا۔ 26 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ 6اپریل 1971 کو جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تاکہ حالات پر قابو پایا جاسکے لیکن جامعہ ڈھاکہ پر حملے کی وجہ سے حالات مزید بگڑ گئے اور 31 اگست 1971 کو اسے واپس بلا لیا گیا۔ بنگالی عوام جنرل ٹکا خان کو “قصاب بنگال” کے لقب سے نوازا، بنگالی قوم پرستوں اور علیحدگی پسند عناصر کے حاتمے کے لیے “آپریشن سرچ لائٹ” کا آغاز کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرلیا۔
تقریباً 1 کروڑ بنگالی بھارت ہجرت کر گئے جنکی مدد کے بہانے بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاک فوج کے حلاف جنگ لڑی۔ بھارتی فوج نے “آپریشن جیکپاٹ” کے ذریعے مکتی باہنی کی ناصرف مالی معاونت کی بلکی انہیں جنگی صلاحیتیں بھی سکھائیں۔ آپریشن جیکپاٹ کی وجہ سے پاک بحریہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔3 دسمبر 1971 کو پاک فضائیہ نے بھارتی ایئر بیسوں پر حملہ کردیا جس نے تیسری پاک-بھارت جنگ کی باقاعدہ شکل احتیار کرلی۔
آخرکار اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نتیجے جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا اور یوں 93000فوجی بھارتی قید میں چلے گئے اور پاکستان دولخت ہوگیا۔
جان شیر خان گفٹ یونیورسٹی میں بی ایس ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیزکے طالب علم ہیں اور اپنی یونیورسٹی میں محتلف ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ سیاسی، تاریخی موضوعات اور حالاتِ حاضرہ پر لکھتے ہیں۔ ان کا ای میل پتہ jansherk590@gmail.comہے۔