ہرعورت کاایک ماضی ہوتاہے، تحریر: صبا ادریس

ہرعورت کی ایک کہانی ہوتی ہےبعض خواتین اپنےبچپن سےہی گھرمیں جھگڑامارکٹائی دیکھتی ہیں ،وہ ایسےماحول کاسامناکرتےہوئےذہنی تناؤکاشکارہوجاتی ہیں، بعض خواتین بچپن میں کسی کی ہوس کاشکاربن چکی ہوتی ہیں، بعض لڑکیوں کوپیارکےنام میں صرف دھوکا ملتاہے،کچھ خواتین کوان کےاپنےہی گھروالےمختلف وجوہات کی بناپربلیک میل کرتےہیں، کچھ خواتین والدین کےدباؤمیں آکرایک بےنام رشتےمیں بندھ جاتی ہیں ،کچھ خواتین کےماضی میں گھرٹوٹ چکےہوتےہیں ،بعض خواتین کو کسی وجہ سے طلاق ہوچکی ہوتی ہے،کچھ خواتین کوحالات بے راہ روی کا شکارکردیتےہیں، کچھ خواتین نشےکی عادی ہوچکی ہوتی ہیں،کچھ لڑکیاں کئی ایک وجوہات کی بناءپرمتعدد بارخودکشی کی ناکام کوشش کرچکی ہوتی ہیں۔وجوہات جو بھی ہوں مگرصرف عورت کےلیےسزاکیوں؟
پاکستان میں پولیس ریکارڈاورمختلف تنظیموں کےاعدادوشمارکے7 مطابق اوسطاً ہرروز 11معصوم بچےجنسی درندگی کاشکاربنتےہیں۔2016 میں ملک بھرمیں 100 بچےزیادتی کےنتیجےمیں اپنی زندگیوں سےہاتھ دھوبیٹھے۔2013میں 3002 کیسزجنسی زیادتی کےرپورٹ ہوئے۔2014 میں 3508بچوں کوجنسی بدفعلی کانشانہ بنایاگیا ۔2016 میں جنسی زیادتی کےواقعات میں 1277 بچیوں کوہوس کانشانہ بنایاگیا۔06 اپریل 2016 کوکراچی کے تھانہ صدرکےعلاقےمیں تہمینہ نامی بچی کوزیادتی کےبعدقتل کرکےلاش زیرتعمیرمکان میں پھینک دی گئی،4 مئی 2016 کوبھی اسی مقام پرثنانامی بچی کوزیادتی کےبعدقتل کیاگیا۔8جنوری 2017 کوعائشہ نامی بچی کوہوس کانشانہ بناکرقتل کردیاگیااورلاش زیرتعمیرمکان میں پھینک دی گئی۔24 فروری 2017 کوصدرکےعلاقےمیں ایمان فاطمہ نامی بچی کوزیادتی کانشانہ بنایاگیا۔ 11 اپریل 2017 کوتھانہ صدرہی کےعلاقےمیں معصوم پھول نورفاطمہ کوزیادتی کےبعدلاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔21 اپریل 2017 کوایک بارپھرتھانہ صدرکےعلاقےمیں فوزیہ نامی بچی کوزیادتی کانشانہ بنایاگیا۔8 جولائی 2017 کوکھاراروڈمیں8 سالہ لائبہ کوزیادتی کانشانہ بنایاگیا۔
ہم بات کررہےہیں اپنےمعاشرےکی جہاں جب کوئی حواکی بیٹی کسی آدم کےبیٹےکوپسندیدگی کی نگاہ سےدیکھتی ہےیااُس کےساتھ کسی پاک رشتےمیں بندھناچاہتی ہےتوعزت کےنام پراُس کی سوچ اُس سےچھین لی جاتی ہے ،اُس کےخیالات اُس سےچھین لیےجاتےہیں، اُسے کمزور ہونے کا احساس دلایاجاتاہےلوگوں کےرویےبدل جاتےہیں ،اُس کی زندگی کواُس پرحرام قرار دیا جاتا ہے اور یوں اچانک سےہمارےمعاشرےکی صدیوں سےسوئی ہوئی عزت جاگ جاتی ہے، ہمارے پاکستان میں آج بھی بہت سی بیٹیاں عزت کےنام پرکسی بھی مردکےہاتھوں سونپ دی جاتی ہیں۔ آج بھی بہت سی بہنیں اپنےبھائیوں کےہاتھوں قتل ہوتی ہیں یہاں سوال یہ اٹھتاہےکےصرف عورت کےلیےسزاکیوں؟سمجھوتےکےنام پرعورت کےاحساسات کوروندھاجاتاہےہمارےیہاں بچپن سےلڑکی کےدل میں یہ بات ڈال دی جاتی ہےکہ اپنےشوہرکےگھرجاکرصرف سمجھوتا کرنا ہے حالات جیسےبھی ہوں بس گزارہ کرناہےاگرہم گلی محلوں کی بات کریں ہمارےگلی محلوں میں جب بھی گالی کی آوازآتی ہےتواس میں عورت کانام ہوتاہےماں بہنوں کی گالیاں دیناتوجیسےایک معمولی سی بات ہے ہمارےمعاشرےمیں گھریلوتشددکاسامنابھی صرف عورت کوہی کرناپڑتاہےعزت کےنام پرفروخت بھی صرف عورت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ آج کے جدید دور میں بھی عورت کواس کا اصل مقام دینےکےلیےتیارنہیں، جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔اگرآپ کسی ایسی عورت کودیکھتےہیں جوماضی میں ان سب حالات سےدوچارہوچکی ہوتی ہےاورموجودہ حالات میں خود کونارمل کرنے کےلیےاپنےآنسوچھپاتی ہے، اپنا میک اپ کرتی ہے،بال بناتی ہے،اپنےآپ کومحفوظ دکھاناچاہتی ہے،اپنےچہرےپرمسکراہٹ لاتی ہےکسی بھی دکھ سےگزرنےکےباوجوداپنےبہترمستقبل کی تمنارکھتی ہےآگےبڑھناچاہتی ہے۔ اپنےساتھ برا ہونےکےباوجودبھی وہ اس چیزپریقین رکھتی ہےکہ محبت،احساس،خوشی جیسی چیزیں اس دنیامیں آج بھی موجودہیں تو۔ ہرعورت کاایک ماضی ہوتاہے؟؟لیکن وہ پھربھی بہترحال بہترمستقبل کے خواب دیکھتی ہے ،اس کی جاگتی آنکھوں میں ڈھیروں سپنےڈھیروں خواب ڈھیروں ستارےجھلملاتےہیں۔
ہمیں یہ سمجھنےکی ضرورت ہےکہ عورت ایک باغ ہےایک آزادپنچھی کی طرح اڑتی ہوئی تتلی ہے،ماں بہن بیٹی بیوی بہت سےانمول رشتےخداتعالیٰ نےعورت کی ذات میں سمو دیئےہیں جو اپنے ہر رشتے کے ساتھ ایمانداری سےپیش آتی ہےتوکیاہم صرف اس کےحقوق پورےکرکےاُسےاُس کامقام نہیں دےسکتے؟
ذراسوچیں کیاہمارےبہتررویوں سےبہت سےگھرخوشحالی کی طرف نہیں جاسکتےجب خدابیوی بیٹی ماں بہن کواعلیٰ مقام دیتاہےتوہم کون ہوتےہیں یہ حق کسی سےچھینےوالےبےشک عزت ذلت صرف اسی کی ذات کےہاتھ میں ہے۔مل کرایک قدم اٹھائیں آزادی کی طرف کامیابی کی طرف۔ ۔اورہر عورت کا ماضی چاہے کتنا ہی سانحات اور المناک داستانیں رکھتا ہو مگر وہ خواب دیکھتی ہے، احساسات رکھتی ہے اور انہی خوابوں اور احساسات کی تکمیل کے لیے نبردآزما رہتی ہے۔


صبا ادریس فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہیں اور فائن آرٹس میں ماسٹرز کر رکھا ہےآجکل درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ مصوری میں کمال رکھتی ہیں اور ضلع کی سطح پر بیشتر مقابلے جیت چکی ہیں سماجی اور انسانی ہمدردی کے کاموں میں بھی شریک رہتی ہیں۔The Knowledge Academy کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہی ہیں بہت سے ایونٹ آرگنائز کروا چکی ہیں اور ٹرینر کےطور پر کام کر رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں