چائلڈ لیبر ایک ناسور، تحریر: صباءادریس

بچے جو کسی ملک و قوم کا مستقبل, سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں جب حالات سے مجبور ہوکر ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کے لئے اپنے گھر سے نکل پڑتے ہیں تو یقینا اس معاشرے کے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
غریب طبقے کے پاس اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی کام پر لگا دیتے ہیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے سکول جانے کی عمر میں بچے دکانوں ہوٹلوں بس اڈوں ورک شاپ پر بھاری بھرکم کام کرتے نظر آتے ہیں قوم کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن سے محروم ہوتا نظرآتاہے۔
پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون موجود ہے لیکن اس قانون پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں سے 40 فیصد بچے سکول نہیں جاتے جن کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ 40 ہزار بچوں تک پہنچ چکی ہے
پنجاب میں کل سکول جانے والے بچوں میں سے 40 فیصد جن کی تعداد 1 کروڑ 5 لاکھ 27 ہزار بنتی ہے سکول سے باہر ہیں۔
جو کہ سب سے زیادہ تعداد ہے صوبہ خیبر پختون خواہ میں سکول جانے والے بچوں میں سے 34 فیصد جن کی تعداد 23 لاکھ 85 ہزار صوبہ سندھ کے سکول جانے والے بچوں میں سے 51 فیصد جن کی تعداد 64 لاکھ 13 ہزار سکول سے باہر ہیں صوبہ بلوچستان کے کل جانے والے بچوں میں سے 70 فیصد جن کی تعداد 19 لاکھ 12 ہزار بنتی ہے سکول سے باہر ہیں
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی کل تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ 40 ہزار ہے جن میں بچوں کی تعداد 1 کروڑ 21 لاکھ ساٹھ ہزار جو کہ کل بچیوں کی تعداد کا 49 فیصد بنتی ہے جبکہ لڑکوں کی تعداد 1کروڑ 6 لاکھ جو اسکول سے باہر ہے اسی طرح لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ اسکول سے باہر ہے اگر صرف صوبہ پنجاب کی طرف دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر دکھائی دیتے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے پنجاب میں تقریبا 1 کروڑ پانچ لاکھ 27 ہزار بچے تعلیم جیسی نعمت سے مرحوم ہے
دستیاب دستاویز کے مطابق صوبہ پنجاب کے کل سکول جانے والے بچوں میں سے 40 فیصد بلوچستان کے 70فیصد فاٹا کے 85 فیصد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے 12 فیصد گلگت کے 47 آزاد جموں کشمیر کے تعلیم سے محروم ہیں
دیکھا جائے تو پاکستان میں سب صوبوں میں سے سب سے خراب صورتحال بلوچستان کی ہے جہاں 70 فیصد بچے سکول نہیں جاتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے 45 ہزار بچے سکول سے باہر ہیں اور فاٹا 7 لاکھ 48 ہزار گلگت بلوچستان کے 23ہزار آزاد جموں کشمیر کے 5 لاکھ 92 ہزار بچے سکول جانے سے محروم ہے۔
پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے 14 سال ہوگئے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور اس قانون میں بھی نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے
مزدور بچوں پر آخری سروے 1995 میں ہوا جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 33 لاکھ مزدور بچے ہیں جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں پر کام کرنے والے بچوں کی تعداد ہے مزدور بچوں کا 80فیصد تو غیر رسمی شعبہ میں ہے جیسے کہ گھروں میں کام کرنا کھیتوں میں کام کرنے والے بچے جن کا کوئی سروے دستیاب نہیں ۔
سماجی بہبود کے اعداد و شمار کے مطابق باقاعدہ شعبوں میں کام کرنے والے مزدور بچوں کی تعداد 40 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں سے 20 لاکھ مزدور بچے پنجاب میں ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گاڑیوں کی ورکشاپوں کی فرنیچر کی کارخانوں اور ہوٹلوں میں مزدور بچوں کی ایک کثیر تعداد کام کرتی دکھائی دیتی ہے اسی طرح سیالکوٹ کی بات کی جائے تو سیالکوٹ میں جراحی کے آلات بنانے کے کارخانوں میں ہزاروں بچے مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں ملک بھر میں بچے کوڑا کرکٹ اٹھاتے نظر آتے ہیں بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک وجہ غربت ہے عام طور پر غریب ماں باپ اپنے کمسن بچوں کو متوسط درجہ کے گھروں میں بطور گھریلو ملازم رکھوا دیتے ہیں عام مشاہدے سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ یہ بچے غلاموں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ان معصوم بچوں سے ضرورت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اکثربچو ں کو مارپیٹ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ایسی ملازمت میں تشدد سے موت واقع ہونے کی بھی خبریں آئے دن ہمیں سننے میں ملتی ہیں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بچوں کی مزدوری روکنے کے لئے حکومت نے 7 کروڑ کی آبادی میں 2005 تک صرف 84 انسپکٹر تعینات کیے تھے اسی طرح بچوں سے خطرناک مزدوری کرانے والوں کے خلاف گزشتہ 2004 میں صرف 391 مقدمے درج کیے گئے مقدمے میں صرف 13 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا خطرناک کام کرنے کے لئے کسی بچے کو مزدور رکھنے والے افراد کے لئے جرمانے کی زیادہ سے زیادہ شرح ڈھائی سو ہے بڑے پیمانے پر پھیلی سماجی برائی کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اور کڑے قوانین کا ہونا ناگریز ہے
وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کی چاروں صوبائی دارالحکومت میں 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد بچے صرف کوڑا کرکٹ اٹھانے اور ہسپتالوں کا فضلاء جمع کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں ملک میں روز بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور مہنگائی میں اضافے کے پیش نظرخدشہ ہے کہ مملکت خداداد میں بچائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی
بچوں سے مزدوری کے موثراثرات ۔
یہ پاکستانی بچے سکولوں میں پڑھنے سے قا صر ہیں سکول جانے کی عمر میں بچے سخت محنت اور مشقت والے کام سرانجام دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے اور ایسا کرنے سے بچوں میں ذہنی جسمانی معاشرتی اور کی اخلاقی نقصانات سامنے آتے ہیں
لہٰذا چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمے کے لئے معاشرے کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کے لیے مفت تعلیم علاج معالجہ اور کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اس کے اسباب کے خاتمہ کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا


صبا ادریس فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہیں اور فائن آرٹس میں ماسٹرز کر رکھا ہےآجکل درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ مصوری میں کمال رکھتی ہیں اور ضلع کی سطح پر بیشتر مقابلے جیت چکی ہیں سماجی اور انسانی ہمدردی کے کاموں میں بھی شریک رہتی ہیں۔The Knowledge Academy کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہی ہیں بہت سے ایونٹ آرگنائز کروا چکی ہیں اور ٹرینر کےطور پر کام کر رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں