لہسن ،ڈکار اور نماز۔۔۔ تحریر:اے آر بابر

لہسن کی بیشمار خوبیاں اسے دیگر اجناس سے ممتاز کرتی ہیں۔ انسانی صحت کے حوالے سے بے شمار بیماریوں کے خلاف اس کا مثبت اور جاندارکردار اس کی افادیت کو ایک مسلمہ حقیقت بنادیتا ہے۔ لیکن کچے لہسن کے استعمال میں ایک خامی بھی ہے، اور وہ ہے اس کو کھانے کے بعد منہ سے آنے والی بُو، جو جلد ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور دوسروں کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا لہسن کو کھانے کے بعد مسجد میں تشریف لانے سے اللہ کریم کے پیارے محبوب ؐ نے منع فرمایا ہے۔ چونکہ بعض مخصوص حالات کے علاوہ اسلام میں فرض نماز کی باجماعت ادائیگی پر ہی زور دیا گیا ہے جس کی اپنی الگ سے بے شمار حکمتیں ہیں، چناچہ مسا جد میں لوگ عموماً باجماعت نماز کی ادائیگی کیلئے ہی تشریف لاتے ہیں۔ باجماعت نماز میں امام کے قیام ،رکوع اور سجدوں کی ادائیگی کے ساتھ ہی مقتدیوں کے قیام، رکوع اور سجدے بھی ادا ہوتے ہیں۔ اب یہ امام کی مرضی پہ منحصر ہے کہ ان ارکانِ نماز کو جتنا چاہے لمبا کر دے، مقتدیوں کو بہرحال ساتھ دینا ہی پڑتا ہے کیونکہ یہ نظم و ضبط بھی باجماعت نماز ہی کا خاصہ ہے۔ اب اگر کوئی نمازی بھول چوک سے لہسن کھا کر جماعت میں شامل ہو جائے اوریہی امام اور مقتدیوں کا ساتھ اگر طوالت بھی اختیار کر جائے، توایسے نمازی کے ساتھ کھڑے دیگر نمازیوں پہ جوگزرتی ہے، ا س کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
خاص طور پر سردیوں کے موسم میں، جب پنکھے تو بند ہوتے ہی ہیں، دروازے بھی بند کر دئیے جاتے ہیں تاکہ سردی سے بچا جا سکے۔ یوں لہسن کی بُو سے آلودہ اس نمازی کی سانسوں کی آمدورفت سے ایک مستقل ہالہ سا تشکیل پاجاتا ہے جواردگرد کے نمازیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور بُو کی زد میں آئے ہوئے نمازی آزمائش کی ان گھڑیوں میں جُزبُز ہوتے ہوئے بھی نماز کی ادائیگی جاری و ساری رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور دل ہی دل میں خود کو یہ سوچ کر تسلی دئیے رکھتے ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والا ثواب بھی شاید نسبتاً زیادہ ہی ہو گا۔ کیونکہ ضبط نفس کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر، صرف چند صاف شفاف اور گہرے سانس لینے کی شدید خواہش کے باوجود بھی، نمازیوں کو لہسن زدہ ماحول کو بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ باجماعت نماز کا مثالی نظم وضبط ہی ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے ،اور وہ میکانی انداز میں رکوع و سجود کرتے ہوئے، درمیان میں اگر کہیں کمال ہوشیاری سے قدرے صاف سانس لینے میں کامیاب ہو بھی جائیں، توپھر بھی وہ کسی ماہر یوگی کی طرح اپنی نمازکے خاصے بڑے حصّے کو، اُسی صاف سانس کو زیادہ سے زیادہ دیر تک، اپنے پھیپھڑوں میں سنبھالے رکھنے کے چکر میں وقف کر دیتے ہیں۔
خشوع خضوع والی کیفیت تو خیر فوراً ہی رخصت ہو جاتی ہے اور بُو کے شکار نمازیوں کی سوچوں کا محور ومرکز،صرف یہ گننا اور اندازے لگانا رہ جاتا ہے کہ کس رفتار سے کتنی رکعتیں ادا ہو چکیں، اور باقی ماندہ کے ادا ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ اگرچہ بعض نمازی حضرات بغیر لہسن کھائے بھی، اپنی لمبی لمبی جمائیوں اور بدبُو دار سانسوں کے بھرپور اخراج سے پر سکون صفوں میں انتشاری کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اوران کے ساتھ کھڑے مظلوم نمازی دل ہی دل میںیہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ، جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔
لہسن والے مسئلے کی نسبت ،ایک اور مسئلہ بھی خاصہ عام ہے۔ضعیف العمری اور مریضوں کی مستثنیات کے ساتھ، بعض نمازی حضرات نماز کو شاید صرف ورزش کرنے کا ہی ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ ڈٹ کر کھانا تناول فرما کر مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔ اور تقریباً ہر قیام،رکوع اور سجدے کی بجا آوری کے بعد، خاص طور پر اپنے دائیں اور بائیں کھڑے نمازیوں کو اپنی مختلف فریکوئینسیوں والی ڈکاروں سے نوازتے ہیں،اور نوازشات کا یہ سلسلہ اکثر سلام پھیرنے تک جاری رہتا ہے۔ عموماً معدے سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہوئی گیسیں جونہی منہ سے خارج ہوتی ہیں، تو حلق میں سے چند مخصوص آوازیں بھی ان کے ساتھ ہی برآمد ہو کر سماعتوں میں ’’رس‘‘گھولتی ہیں۔ ان آوازوں کو ڈکاریں کہا جا تا ہے اور واحد جن کی ڈکار کہلاتی ہے۔ بہرحال لہسن کی بُو چونکہ ناگواریت میں اپنی دیگر تمام ہم جنسوں پہ حاوی ہوتی ہے، لہٰذااسکی ایک ہی طرح کی بُو ہی حواس پہ چھائی رہتی ہے۔ لیکن ڈکاروں کا معاملہ مختلف ہے۔ ایک باہوش انسان کوکسی کی ڈکاروں سے مستفید ہو کر، ڈکارنے والے شخص کے معدے میں پڑے غیر ہضم شدہ کھانے کے مینو تک کا پتہ چل جاتاہے۔

دورانِ نماز مسلسل ڈکارنے والے نمازی کے ساتھ، اگر کوئی ایسا شخص کھڑا ہو جو علمِ طب میں دلچسپی رکھتا ہو تو اسے ضعف معدہ کے امراض سے لے کر نظامِ انہضام کی اشکال والے چارٹ پیپرز تک یاد آجاتے ہیں۔ بعض حضرات کی ڈکاروں کی شدت اور طوالت سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے سفر کا آغاز معدے سے نہیں، بلکہ دور کہیں واقع ،کسی اور ہی منفرد مقام سے ہو رہا ہے۔ طویل دورانئیے کی ان ڈکاروں کا اس لحاظ سے اپنا ایک الگ مقام ہے کہ یہ اپنے متاثرین کے دلوں میں بیک وقت حیرت،غصّے اور افسوس کے جذبات پیداکرنے کا باعث بنتی ہیں۔بہرحال لاعلم ہونا الگ بات ہے لیکن جان بُوجھ کر ایسی حرکات کے مرتکب نمازی حضرات کویونہی برّی الذمہ قرار نہیں یا جا سکتا،کیونکہ ایسی تمام حرکات و سکنات، مکروہات نمازاور بے ادبی کے زمرے میں آتی ہیں۔
’’ ا قامت نماز اور اس کا طریقہ ‘‘کے باب میں سنن ابن ماجہ کی بہت واضح حدیث پاک موجودہے کہ رسول اللہؐنے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے اور آواز نہ نکالے اس لئے کہ اس پر شیطان ہنستا ہے۔ اسی طرح بعض نمازی حضرات سردیوں میں اپنی گندی اور بد بُو دار جرابیں پہنے ہی باجماعت نمازمیں آ شامل ہوتے ہیں ،اور یہ صورتِ حال ان کے ساتھ دائیں بائیں کھڑے نمازیوں کیلئے کسی ’’ آفتِ ناگہانی‘‘ سے کسی طور بھی کم نہیں ہوتی۔لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں، وہ نمازی شامل ہوتے ہیں ،جوپسینہ زدہ بدبُو دار جرابیں پہنے ہوئے نمازیوں کے، عین پیچھے نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں۔جونہی اگلی صف میں کھڑے یہ گندی جرابیں پہنے ہوئے نمازی سجدے میں جاتے ہیں، تو ان کی تقلید میں، پچھلی صف میں کھڑے نمازیوں کے سر ان گندی جرابوں کے قریب ترین آجاتے ہیں ،لہٰذا سجدوں میں پڑے پچھلی صف کے ان مظلوم نمازیوں کو اپنے دم سادھ کر ہی تسبیحات کی معیّنہ کم از کم تعداد کو اداکرنا پڑتا ہے۔ایسا ہی ایک اور ’’سدا بہار ‘‘مسئلہ بغلوں سے بہنے والا بد بُودار پسینہ بھی ہے، جوہر موسم میں اپنی جولانیاں دکھا کر نمازیوں کو پریشان کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا بُو چاہے لہسن کی ہو یا ڈکاروں،جمائیوں ،گندی جرابوں،سگریٹ ،نسوار اور بغل کے پسینے کی،ہر کسی کے لئے بلعموم اور نمازیوں کے لئے بلخصوص، پریشانی کا ہی باعث بنتی ہے۔ چناچہ علمائے کرام کو وقتاًفوقتاً دیگربڑے بڑے فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا ان چھوٹی چھوٹی مگر’’ سنگین ‘‘باتوں پر بھی روشنی ڈالتے ر ہنا چاہئے،اور اس ضمن میں ان کی ترجیحات میں سرِفہر ست ،یہ با ت بھی ضرورشامل ہونی چاہئے کہ معاشرے میں کوئی بھی انسان، کسی دو سرے انسان کی پریشانی کا باعث نہ بنے، چاہے وہ نمازی ہو یابے نمازی۔


اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں