زرداری اور ان کی بازی۔۔۔ تحریر:بشریٰ سحرین

زرداری۔ اور ان کی بازی۔۔۔
یا تو سیاسی شہید یا پھر غازی۔۔۔
جو بھی کر لے نیازی۔۔
بھٹو پھر سے ہوگا زندہ
ہوچکی بھرپور تیاری۔۔۔

پاکستان کی سیاست میں تاریخی کردار ادا کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کیا اپنی ساکھ کھو رہی ہے؟

کیا بھٹو واقعی زندہ ہے یا زندہ ہو سکتا ہے۔ ؟

ذرداری صاحب کی للکار۔ غصہ کس چیز کا عندیہ دے رہا ہے؟

کیا وہ کڑےاحتساب کے لیے تیار ہیں؟

ایسے بہت سے سوالات تو ذہن میں آتے ہیں مگر اس سے پہلے تھوڑی ماضی کی جانب نظر دوڑائی جائے تو صوبہ سندھ میں سالوں سے سیاست کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ تو الیکشن کی خاص تیاری کی اور نہ ہی وہ خاص ووٹ لے سکی۔ سندھ کی عوام کو وہی پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گیس کا فقدان ہے اور تھر جیسے علاقے میں آج بھی بچے صرف غذائی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ الیکشن میں لیاری جسے پی۔پی۔پی۔کا گڑھ مانا جاتا تھا ۔ وہاں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا جب بلاول وہاں ووٹ مانگنے گئے تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ لیاری کی عوام پیپلز پارٹی سے بلبلا اٹھی۔
آج جب پی ٹی آئی حکومت میں آچکی ہے ملک قرضوں کہ نہج پر ہے اور تو اور سب سے زیادہ قرضے زرداری صاحب اور نوازشریف کی دور حکومت میں لئے گئے تو اب احتساب کو بھی انتقامی کاروائی کہا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں شہید بی بی بے نظیر کی برسی کے موقع پر زرداری صاحب کی تاریخ کی سب سے چھوٹی تقریر سامنے آئی۔ شہید اہلیہ بے نظیر بھٹو کا نام بھی نہیں لیا اور صرف اور صرف حکومت اور ناقدین پر لفظی گولہ باری کی۔ موجودہ حکومت کا موازنہ کیا۔پہلے 100 دن کا موازنہ کیا۔ اپنے تین سے چار اقدامات بتائے۔ حالانکہ زرداری صاحب کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ وہ بہت کم سخت الفاظ کا چناو کرتے ہیں اور یہاں پر انہوں نے سخت الفاظ کا چناوُ کیا۔ پھٹے ہوے ڈھول ۔ناقدین کے لیے بکواس جیسا لفظ استعمال کیا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو بھی ماں کی برسی پر ماں کی شخصیت پر بات کرنے کی بجائے صرف اور صرف مخالفین پراور حکومت پر کڑی تنقید کرتے نظر آئے۔ یہ شہید بےنظیر کی یاد میں برسی تھی یا سیاست چمکانے کا جلسہ؟ حالانکہ بی بی کو زیادہ یاد کرنا چاہئے تھا اور سیاست کم چمکاتے۔ پیپلز پارٹی کو کس نے بیچا ؟ پیپلزپارٹی کو کیسے گرایا گیا؟ بے نظیر کو کس نے مارا؟ ایسے کئی سوالات ہیں۔ جو سال ہا سال سے کھڑے ہیں۔ لیکن ایک بھی جواب نہیں۔ کہنے کو بھٹو آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
دوسری جانب بھٹو کی تاریخ میں صفر کارکردگی دکھانے والی بے نظیر بھٹو کی ہمشیرہ صنم بھٹو کو بھی سیاست میں شامل کیا جاریا ہے۔ واضح رہے کہ زداری صاحب اور زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا نام ای۔سی۔ایل میں شامل کیا گیا ہے ساتھ ہی 175 کے قریب لوگوں کے نام پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے شامل کئے گئے ہیں اگر زرداری صاحب اور فریال تالپور جیل جاتے ہیں تو سیاسی معاملات میں صنم بھٹو بلاول کے ساتھ ہونگی۔یہاں اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج اتنے سال کے بعد بھٹو کی دوسری بیٹی سامنے کیسے آئی؟؟؟اور اگر زرداری صاحب بچ کے واپس آجاتے ہیں جو کہ ناممکن دِکھ رہا ہے پھر بھی اگر بچ جاتے ہیں پھر بھٹو کی بیٹی کو واپس کنارے لگا دیا جائے گا؟
گڑھی خدا بخش میں گیارہویں برسی پر بھی بے نظیر کانام لیا گیا نہ ہی محترمہ کو یاد کیا گیا۔ بلکہ گڑھی خدا بخش کو صرف اور صرف مخالفین پر تنقید کے لیےاستعمال کیا گیا۔ اور تو اور جو نعرے لگائے گئے وہ بھی ن لیگ سے ملتے جلتے تھے۔ مانو ایک جیسی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ذرداری صرف بہانہ ہے بلاول اصل نشانہ ہے۔ گزشتہ جلسے میں بھی وہ آصفہ بھٹو کے ہمراہ تشریف لائے اور اپنے خطاب میں بھرپور انداز میں للکارا کہ وہ ہر طرح سے تیار ہیں۔ ہر کیس کا سامنا کریں گے۔ بلاول بھٹو اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا نام بھی نکال دیاگیاہے لیکن احتساب پھر بھی ہوگا۔ زرداری صاحب احتساب میں شہید ہوتے ہیں یا غازی ؟یہ تو ان کی تیاری اور آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔


بشریٰ سحرین ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرچکی ہیں اور گزشتہ آٹھ سال سے صحافت کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو اور مختلف ٹی وی چینلز پر ہزاروں پروگرامز کی میزبانی کر چکی ہیں۔ اب لکھنے کا باقاعدہ آغاز کر رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں