تحریر خاصی حد تک دلی جذبات کی عکاّس ہوتی ہے۔دل پاک و صاف ہو تودر پیش معاملات کی گتھیاں خود بخود سلجھتی چلی جاتی ہیں ۔نتیجتاً معرضِ وجود میں آنے والی عبارت پُر اثر اورپائیدار ثابت ہوتی ہے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں ،طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اور شاعرِ مشرق کا یہ بھی کیا خوب فلسفیانہ شعر ہے،
آیا کہاں سے نالہِء نَے میں سرورِ مَے
اصل اس کی نَے نواز کادل ہے کہ چوبِ نَے
یعنی بانسری کی دل سوز آواز میں شراب کے سرور جیسی کیفیت کی اصل وجہ، بانسری کی لکڑی نہیں ،بلکہ بانسری نواز کادل ہوتا ہے۔گویا لکھاری کا قلم ،لکھاری کے دل کی زبان ہوتا ہے۔امام غزالی ؒ فرماتے ہیں ’’ ہر لکھنے والا عنقریب فنا ہو جائے گا،مگر لکھی ہوئی تحریر ہمیشہ باقی رہے گی، لہٰذاتم اپنے ہاتھ سے ایسی شے تحریر کرو، کہ جسے تم قیامت کے روز دیکھ کر خوش ہو جاؤ ‘‘۔ چناچہ لکھے گئے الفاظ کی افادیت ایک مسّلمہ حقیقت، اور اس سے انکار، ناممکنات میں سے ہے۔ بے مثال و لاجواب شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب سے بڑھ کر الفاظ کے استعمال کو نیا رنگ روپ ،بھلا اور کون دے سکا ہے۔ لکھے ہوئے الفاظ کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور آنے والے وقتوں میں وہ کیا حیثیت اختیار کر سکتے ہیں، اس کا ہلکا سا اندازہ، اِسی عظیم شاعر کے اِس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتاہے۔گھر میں فاقہ مستی کا ساعالم تھا جبکہ مرزا غالب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد بھی مقرر ہو چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ سلامت نے ان سے مغلیہ خاندان کی منظوم تاریخ رقم کرنے کی درخواست کی۔شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے مرزا نے اثبات میں سر ہلایا،اور خوشی خوشی گھر تشریف لاکر اپنی شریکِ حیات کو اس نئی ذمہ داری سے آگاہ کیا۔’’ وہ سب تو ٹھیک ہے ،مگر کوئی وظیفہ وغیرہ بھی ملے گاکہ نہیں ؟ ‘‘ غالب کی بیگم نے پوری بات سن کر استفسار کیا۔ ’’ کیوں نہیں ،شاہی خاندان کی تاریخ لکھنی ہے ،کوئی شاہی انداز کا وظیفہ بھی مقرر ہو جائیگا،‘‘مرزانے جواب دیا۔’’ اور اگر نہ ہوا تو ! ‘‘مرزا کی بیگم دل کے دھڑکے کو زبان تک لے ہی آئیں ۔ ’’ تو ہم تاریخ بدل دیں گے ،‘‘امام الشعراء نے جواب دیتے ہوئے کہا۔شاعرانہ شوخیِ ء ا ظہار ایک طرف ،مگراوپر درج واقعہ سے باور صر ف یہ کرانا مقصود ہے ،کہ لکھے گئے الفاظ بعض صورتوں میں کس قدر حشر ساماں ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اگرچہ صحافت کے پیشے کا بنیادی تقاضہ اس بات کو یقینی بنانا ہوتاہے کہ عوام تک بروقت خبر کی ترسیل کس طرح ممکن ہے۔ لیکن ایک صحافی کے فرائضِ منصبی میں دیگر کے ساتھ شامل ،ایک اہم فریضہ ،رائے عامہ کی تشکیل کابھی ہوتا ہے۔جو کہ ہمیشہ مثبت اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔کسی بھی اہم ملکی یابین الاقوامی معاملے پر پوری قوم کو یک جا اور ہم آواز کرنے کے لئے ایک صحافی کا قلم اپنے دائرہ کار کے حوالے سے بہت وسعت کا حامل ہوتا ہے۔زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانابھی، ابلاغی ماہرین اور صحافیوں کی اوّلین ترجیح اور دِلی آرزو ہوتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو سمیٹ کر ،لکھے اور بولے گئے الفاظ کو مزید جاندار بنا دیا ہے۔اگرچہ میڈیا پر بولے گئے الفاظ بھی عموماً پہلے لکھے ہی جاتے ہیں۔جس سے قلم کی،اور بلخصوص ایک صحافی کے قلم کی اہمیت و حیثیت اوربھی دو چند ہوجاتی ہے۔ لہٰذا رائے عامہ کی تشکیل کے حوالے سے اسے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خاصہ محتاط روّیہ اختیار کرنا پڑتاہے۔
کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لے کر ایک اچھے صحافی کو ایسا کرنا بھی چاہئے، لیکن قلم کی عظمت کی سب سے بڑی ،اس دلیل کو بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ کریم نے خودسورہ القلم کا آغاز ہی اس کی قسم کھا کرفرمایا ہے۔اس حوالے سے ایسے صحافیوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جنہوں نے قلم کا سودا نہیں کیااور سچائی کی راہوں پر چلتے چلتے،اپنے ہی خون میں نہلا ئے ہوئے شہادت کے عظیم ترین رتبے پر فائز ہو گئے۔ بہرکیف، اِس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ کون،کیوں، ضمیر کے، یا ضمیر فروش کے کہنے پر قلم اُٹھاتا ،یا رکھتا ہے،مقصدِ تحریر ، ایک صحافی کے قلم کی صرف چند ایک تعمیری اورتخریبی سرگرمیوں کاتذکرہ کرناہے۔ کیونکہ ایک صحافی کا قلم اگر،تعریف کرنے پہ آئے تو غالب کے قصیدے بھی کھوکھلی سیرتوں کی توصیف میں ما ند پڑجائیں،زیبائش کرنے پہ آئے تو بے شمار مکروہ چہروں کو آب و تاب بخش کر انہیں حسنِ یوسف کے مماثل ٹھہرا دے،نکھارنے پہ آئے تو سلوٹوں بھری روح بھی آئینہ ہو جائے،ڈگمگانے پہ آئے تو پوری قوم کو ہی لے ڈُوبے،ناسوروں کی جراحی کرے تو معاشرہ اسے ہی بہترین سرجن کہہ کر پکارے، نقاد بنے تو حکمرانوں کے منہ کبھی اپنے گریبانوں سے ہی اِدھر اُدھر نہ ہوں،بنانے پہ آئے تو کئی پیادے شاہ سوار بن جائیں،حرام کھانے پہ آئے تو شکم کی تشنگی ہی ستاتی رہے،رونے پہ آئے تو ساتھ قوم بھی ماتم کرے،سچائی بیان کرے تو واعظوں کی یاداشت کھو جائے،دروغ گوئی پہ آئے تو لوگ صرف زندگی کا ہی سوچیں،چُھپانے پہ آئے تو سلیمانی ٹوپی بھی شرما جائے، حقیقت دکھانے پہ آئے تو اندھے خود پہ رشک کریں،دوڑانے پہ آئے تو قوم میں بیساکھیوں کا استعمال متروک ہو جائے، بِکنے پہ آئے تو کسبیوں سے بدتر ،ہنسانے پہ آئے تو منور ظریف جیساشاہکار، بے اعتنائی برتے اور ستانے پہ آئے تو ایشیائی شاعروں کا روائیتی محبوب،سُلانے پہ آئے تو محمد رفیع کی سُریلی آواز، جگانے پہ آئے تو صورِ اسرافیل کی پیشگی بازگزشت، اور بھٹکانے پہ آئے تو ابلیسِ اصغر بھی بن سکتا ہے۔
بہرحال ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر حقیقی ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر جو کچھ سامنے آتا ہے، اسے ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہاوسز دکھانے سے اکثر قاصر دکھائی دیتے ہیں۔حرام کھانے والوں کا معاملہ مختلف ہے،لیکن ا یسا بلکل بھی نہیں ہے کہ اہلِ قلم اور خاص طور پر صحافی حضرات ، اپنے اردگرد کی تلخ حقیقتوں اور ناقابلِ تردید سچائیوں کو ورطۂ تحریر میں لانا ہی ہیں چاہتے ،وہ تو چاہتے ہیں ،مگر زیادہ تر انہیں چھاپا ہی نہیں جاتا،کیونکہ اشتہارات اور خدشات خبریّت کو نِگل جاتے ہیں۔جس کی ایک بہت بڑی وجہ شاید یہ بھی توہوسکتی ہے کہ،
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پہ یکساں
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔