اگرچہ یہ کوئی آسان کام نہیں مگر آپ کم وقت میں کافی حد تک اپنے طے کردہ کام مکمل کرسکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آپ نے اپنی ذات کو چند بری عادات سے تباہ نہ کرلیا ہو۔
یہاں ایسی ہی عادات کی نشاندہی کی جارہی ہے جنھیں ترک کردینا ہی بہتر ہے۔
بے مقصد ویب براﺅزنگ
آج کے عہد میں بیشتر افراد کو دفاتر میں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور ذہن میں اٹحنے والے سوالات کے جواب کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا کاموں کو متاثر کرتا ہے اور اگر آپ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کسی جگہ لکھ لیں اور اپنے کام کے دوران ان کی تلاش سے گریز کریں۔
ملٹی ٹاسکنگ
اگرچہ بیشتر افراد کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت دو کام بہترین انداز سے کرسکتے ہیں مگر سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صرف دو فیصد افراد ہی موثر طریقے سے ملٹی ٹاسکنگ کے اہل ہوتے ہیں۔ باقی سب کے لیے یہ ایک بری عادت ہے جو توجہ کی صلاحیت کو کم کرتی ہے اور طویل المعیاد بنیادوں کے لیے ہمارے کاموں کو متاثر کرتی ہے۔
دن بھر ای میلز او سوشل میڈیا کا استعمال
انٹرنیٹ تک رسائی کے نتیجے میں لوگوں کے اندر دن بھر ای میلز کو دیکھنا اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں دن بھر میں کام کے 25 منٹ ضائع ہوجاتے ہیں جبکہ سائنسی تحقیقی رپورٹس کے مطابق مسلسل سوشل میڈیا اور ای میلز کو چیک کرنا ہماری ذہانت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
اپنا سب سے اہم کام آخر تک التوا میں ڈالے رکھنا
لوگ اکثر اپنے دن کا آغاز آسان کاموں کو مکمل کرکے کرتے ہیں اور مشکل کام کو بعد کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی عادت نہیں اور ایسا اکثر کرنے سے اہم کام مکمل بھی نہیں ہوپاتے۔ ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کی قوت ارادی دن میں وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
بہت زیادہ ملاقاتیں یا میٹنگز
کام کی روانی کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ غیر ضروری ملاقاتیں یا میٹنگز ہوتی ہیں۔ جب ای میل، انسٹنٹ میسنجر اور ویڈیو چیٹ جیسے ٹولز پہنچ میں ہو تو لوگوں سے ملاقاتیں یا میٹنگز سنجیدہ معاملات پر بات چیت کے لیے کی جانی چاہئے۔
پورے دن بیٹھے رہنا
ماہرین کے مطابق پورا دن بیٹھنے کی بجائے کچھ دیر بعد اٹھ کر چہل قدمی کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ میٹنگز بھی دفاتر میں کرنے کی بجائے کھلی ہوا میں چلتے پھرتے کرنا کامیابی کی ضمانت نتا ہے۔ تازہ ہوا میں گھومنے سے دماغ بھی تازہ دم ہوجاتا ہے۔
ترجیحات طے کرنے میں ناکامی
کچھ لوگوں کا سوچنا ہوتا ہے کہ متعدد مقاصد طے کرنا کامیابی کے حصول کا بہترین راستہ ہے، اگر ایک ارادہ ناکام ہو تو دیگر کا تو انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سوچ انتہائی ناقص ہے۔ ماہرین کے مطابق زندگی کے مقاصد کے حصول میں ناکامی کی وجہ ترجیحات طے نہ کرنا ہوتا ہے۔ ان کے بقول کم مقاصد کو طے کریں جو آپ کے خیال میں بہت ضروری یا نظرانداز کیے جانے کے قابل ہیں اور بس۔
حد سے زیادہ منصوبہ بندی
بیشتر پرجوش اور منظم افراد اپنے دن کے ہر گھنٹے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ بات ٹھیک ہے کہ دنیا میں سب سے منصوبہ بندی سے ممکن نہیں، بیماری یا غیر متوقع اسائنمنٹ پورے دن کے شیڈول کو کچرے کا ڈھیر بنادیتا ہے۔ اس کے برعکس ہر روز کے چار سے پانچ گھنٹوں کی منصوبہ بندی کی کوشش کریں اور اس میں لچک کا عنصر بھی رکھیں۔
منصوبہ بندی نہ کرنا
طویل المعیاد مقاصد کے حصول کی کوشش سے پہلے حکمت عملی کو ترتیب دینا چاہئے۔ اگر آپ بغیر سوچے سمجھے کوئی کام کررہے ہو اور درمیان اچانک کوئی مسئلہ ہو تو یہ انتہائی دل شکن تجربہ اور وقت کا ضیاع ثابت ہوتا ہے۔
اپنے فون کو بیڈ کے سرہانے رکھنا
ہمارے اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹس اور لیپ ٹاپس کی ایل ای ڈی اسکرینیں نیلی روشنی خارج کرتی ہیں جو مختلف طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق بینائی کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ایک ہارمون میلاٹونین کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، یہ ہارمون نیند کے سائیکل میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس ہارمون کی کمی کے شکار افراد میں ڈپریشن جیسے مرض کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ عملی زندگی میں اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
ٹال مٹول کی عادت
اچھا کام نہ کرنے کا ڈر ٹال مٹول کا باعث بنتے ہیں اور ہم اسی وقت کام کا آغاز کرتے ہیں جب ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس عادت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پرفیکشن ازم کی کوشش کو ترک کردیں اور تفصیلات میں جانے کی بجائے کام میں آگے بڑھنے کو ترجیح دیں۔ اس طرح کام جلد پورا کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔