درشنی شیر، تحریر: اے آر بابر

رکشے کوچاروں طرف سے چادروں سے ڈھانپ دیاگیاتھا۔انجان لوگ ہاتھوں میں چادریں پکڑے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے ایک شخص کو تسلیاں بھی دیتے جارہے تھے۔ دردِ زہ میں مبتلا جس کی بیوی اسی رکشے کے اند ر تکلیف سے تڑپ رہی تھی۔چند راہگیر عورتوں نے ترس کھا کر اسے اس درد سے نجات دلانے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دی تھیں ۔اسی اثنا میں چند دیگر لوگوں نے بھاگ دوڑ کر کے میڈیکل سٹوروں سے مختلف چیزیں خرید کر ان عورتوں کو دے دیں۔تھوڑی دیر بعد رکشے میں ہی اس شخص کی بیوی نے ایک بچے کو جنم دے دیا۔
نون لیگی دور حکومت میں پیش آنے والا یہ واقعہ پہلا ہر گز نہیں۔ملک کے مختلف پسماندہ علاقوں میں پیش آنے والے ایسے واقعات کا تسلسل مختلف اوقات میں جاری و ساری ہی رہتا ہے۔بے شمار واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ایسا نہیں ہے کہ جس شخص کی بیوی نے رکشے میں بچے کو جنم دیا اسے اس کا شوہر ہسپتال لے کر ہی نہیں گیا تھا۔غریب آدمی تھا اور پرائیویٹ ہسپتال کے اخراجات اس کے لئے ناقابل برداشت تھے۔لہٰذا ایک بہت بڑی تعداد میں وہ شہری جو مہنگا علاج خریدنے کی سکت نہیں رکھتے غربت کی چادر میں اپنی بیماریاں چھپائے سستے علاج کے حصول کے لئے سرکار ی ہسپتالوں کا ہی رخ کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح مذکورہ شخص بھی اپنی بیوی کو ڈلیوری کا وقت قریب آنے پر اسے رکشے میں لِٹا کر سرکاری سول ہسپتال کے متعلقہ شعبے کے سٹاف تک لے آیا۔مگر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اسے داخل کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کے شوہر سے کہا کہ وارڈ میں جگہ نہیں ہے اور وہ اپنی بیوی کوفوری طور پر کہیں اور لے جائے کیونکہ اسکی حالت بہت خراب ہے۔شوہر اور اسکی بیوی کی منت سماجت ، گڑگڑانا اور اللہ اور رسول کے واسطے بھی متعلقہ سٹاف اور ڈاکٹر میں رحم کا جذبہ پیدا نہ کر سکے۔ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے درد سہتی ہوئی اپنی بیوی کو وہ شخص اسی رکشے میں دوبارہ لِٹا کر سول ہسپتال سے رخصت ہو گیا۔لیکن جونہی رکشہ ہسپتال کے احاطہ سے باہر نکل کر سڑک پر آیا تو درد برداشت سے باہر ہو گیا ۔درد کی شدت سے تڑپتی اسکی بیوی کی چیخ و پکار نے رکشہ ڈرائیور کو بالآخر رکشہ سڑک کی ایک طرف کھڑاکرنے پر مجبور کر دیا۔
اس کے بعد مذکورہ بالا واقعہ پیش آیا۔بیباک صحافی خواجہ عاطف اس دلخراش واقعہ کے عینی شاہد تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ بچے کے پیدا ہونے سے لیکر اسی رکشے میں اپنی بیوی اور نومولود کو واپس اپنے گھر کی طرف لے جانے تک ، اس عورت کا شوہر فٹ پاتھ پر سر جھکائے روتا ہی رہا۔ جی نیوز کے ایڈیٹر وقاص محمود اور راقم کو خواجہ عاطف نے سارا واقعہ سنا کر وطن عزیز پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام اور اسکی آبیاری کرنے والے سیاسی صاحبان اقتدار کے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔کیا اپنے ملک کے نام کے ساتھ اسلامی اور جمہوریہ لکھ لینے سے اسلام اور جمہوریت کے تمام تر اثرات اور اسکی برکات من وسلویٰ کی طرح آسمان سے نازل ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔غربت وافلاس کی وجہ سے جن کے بچے کا جنم سڑک کنارے کھڑے رکشے میں ہوا،کیا وہ ماں باپ اپنی آئندہ زندگیوں سے احساس کمتری اور احساس محرومی کے منحوس اثرات کبھی نکال پائیں گے۔جوان ہونے پر اس بچے پر کیا بیتے گی جب اس کو پتہ چلے گا کہ کن وجوہات کی بنا پر اس کی پیدائش سڑک کے کنارے کھڑے رکشے میں ہوئی تھی۔کیا وہ کبھی اس ذہنی کرب اور کمپلیکس سے چھٹکارا حاصل کر پائے گا جو اس کے پیدا ہوتے ہی اس کی شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔
اپنے ملک کے ہسپتالوں ،ادویات اور ڈاکٹرز پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ،موجودہ چھوٹے بڑے نااہل حریص ا ور کرپٹ حکمران اپنے علاج معالجے کے لئے فوری طور پر لندن اور دیگر ممالک میں پورے طمطراق کے ساتھ یوں سینے چوڑے کئے اور فخر سے اپنی گردنیں اٹھائے تشریف لے جاتے رہے کہ جیسے انہوں نے پاکستان کی غریب عوام کو تمام اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات دلا دی ہے۔شرم تم کو مگر نہیں آتی کے مصداق گذشتہ کئی دہائیوں میں بار بار اقتدار کے مزے لوٹنے والے کرپٹ حکمرانوں نے پاکستانی عوام کو جمہوریت کے نام پر اپنی رعایا بنایا ہوا ہے اور یہ لوگ ملکی وسائل پر جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے آتش دوزخ سے اپنے پیٹوں کو بھرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔عوام کے نام پہ لئے گئے قرضوں او ر امدادکا ایک بڑا حصہ اپنے باپ کی کمائی سمجھ کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے سربراہ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور کوٹ لکھپت جیل میں مشقت بھری سزا کا ٹنے کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے مگر ان کے خاندان کے مکمل خاتمہ کے لئے کام شروع ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔جو سراسر اللہ کریم کا احسان عظیم ہے ۔ جس کی بدولت مستقبل قریب میں سی پیک کے تمام منصوبوں کے مکمل ہو جانے پر پاکستان کی معیشت بتدریج ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہو جائے گی۔ ورنہ بعضوں کو تو پاکستان کا وجود ہی سرے سے گوارا نہیں۔القصہ مختصر دو ہزار تیرہ کے ملکی عام انتخابات میں کئے گئے اپنے دعووں کے مطابق اگر موجودہ ایک قیدی اور دو سرا فی الحال نیم آزاد ’’ شریف‘‘ حکمران مل کر اس شہرہ آفاق شخصیت کو پاکستان کے چند اہم شہروں کی چیدہ چیدہ سڑکوں پر گھسیٹ کراس سے عوام کے لوٹے ہوئے پیسے نکلوا چکے ہوتے تو شاید گوجرانوالہ کی سڑک پر غربت و افلاس کی چادر اوڑھے ایک مجبور ماں رکشے میں ہی بچے کو جنم نہ دیتی۔ایسے ہی اونٹ کی طرح منہ اٹھا کر عوامی جلسوں میں زرداری کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کا دعویٰ کرنے والے شریف برادران کی پارٹی جب تک برسر اقتدار رہی ،عوام ایسے کسی بھی مظاہرے سے محظوظ ہونے سے محروم ہی رہے ۔غیرت کا تقاضہ تو یہ تھاکہ زرداری کے خلاف ادھر اُدھر کی ہانکنے کی بجائے نون لیگ کی حکومت اس کے خلاف فوری طور پر قانونی کاروائی کر کے لُوٹی ہوئی تمام دولت پاکستان واپس لے آتی ۔ مگر جن کے ایمان دیمک زدہ ہوں اورجو اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں ایسا کرنے کی ہمت نہ کر سکے ان سے آئندہ بھی کسی قسم کی کوئی خیر کی توقع ہر گزنہیں کی جا سکتی ہے۔ گویاانہوں نے ثابت کر دیاکہ یہ وہ درشنی شیرہیں جو صرف مائیک کے آگے اور مجمع کے سامنے ہی بازی گروں کی طرح اچھل اچھل کر دھاڑ سکتے ہیں۔
فی الحال تو نون اور پیپلز پارٹی کی سپریم لیڈر شپ کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔عوام بیچارے ،ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ،دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا،کی عملی تفسیر بنے زرداری اور شریف گٹھ جوڑ کو دیکھ رہے ہیں ۔ شریف زرداری بھائی بھائی کا نیا نعرہ بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے ۔لیکن جیل کا وہ کمرہ جو،آجا تینوں اکھیاں اڈیک دیاں، الاپتا بڑی شدت سے مہمان کا منتظر تھا، انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے پر اب شریفِ اکبر کی بامشقت مہمان نوازی سے محظوظ ہو رہا ہے ۔جس سے کم از کم اب یہ امید تو کی ہی جا سکتی ہے کہ ہاتھوں میں جھاڑو پکڑے اس عظیم درشنی شیر سے جب تمام لُوٹے ہوئے پیسے واپس لے لئے جائیں گے ، تو باقی تمام اصحابِ حرام شکم شاید خود بخود ہی عوام کی لُوٹی ہوئی دولت واپس خزانے میں جمع کروا کر ہاتھوں میں جھاڑو پکڑنے سے محفوظ رہ سکیں۔وہی رقم عالمی اداروں اور امریکہ کے حوالے کر کے ہم قرض در قرض وصولنے کے شیطانی اور سودی چکر سے باہر نکل آئیں گے ۔جس کے بعد قوی امیدکی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی ماں سڑک کے کنارے کھڑے رکشے میں بچے کو جنم دے کر اپنی غربت ،بے بسی اور غلیظ حکمرانوں کی بے حسی کے باعث کبھی بھی یوں سر عام تماشہ بن کر قہر خداوندی کو دعوت نہیں دے گی۔


اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں