ماضی سے لے کر حال تک بہت سے ایسے واقعات ہیں جو روزمرہ کی بنیاد پر رُونما ہو رہے ہیں کسی کی جان چلے جاتی ہے اور کوئی بیساکھیوں کے سہارے سانسیں گن رہا ہوتا ہے اور جو رہ جاتی ہے وہ ہے مذمت ۔۔۔ ہائے مذمت ہی ہے جس پر سب یک زباں ہو جاتے ہیں وگرنہ اقدامات تو خاطر خواہ کوئی نہیں کرتا اگر مذمت سے ذہنی و جسمانی گھاؤ بھرتے ہیں تو آئیں سب پاکستانی مل کے دن رات مذمت کرتے ہیں ہر اُس غیر ذمہ داری کے واقعات کی جو آج سارے سانحے بن چُکے ہیں چلو آؤ مذمت کرتے ہیں ایک بار پھر سے سانحے ماڈل ٹاؤن دہرایا گیا جس میں پولیس گردی میں چودہ نہتے شہریوں نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے تھے اور چلیں مذمت کرتے ہیں سانحہ کراچی کے نقیب اللہ محسور کی جس میں معصوموں کے سر سے باپ کا دستِ شفقت اُٹھ گیا تھا اور آج پھر تاریخ کی گاڑی کا پہیہ وہیں آ کر رُکا ہے۔ جس میں ایک سانحہ نے پھر پولیس گردی کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے رکھا ہے ۔ پھر باغباں کو مسل کر پھولوں کی رکھوالی زیرِ بحث ہے اور تعجب تو یہ ہے اس پر بھی سیاسی بیان بازی سرگرم ہے یہ قطعً حیران کن نہیں کیوں سیاسی حریف اذل سے مخالفین کی ٹانگ کھینچتے چلے آ رہے ہیں البتہ حیران کن بات یہ ہے کہ آخر پولیس ہماری محافظ ہے یا قاتل؟
پولیس کو عوام الناس کی خدمت کیلئے وردی دی جاتی ہے یا شہریوں کو ڈرانے کیلئے ؟ناکے پر کھڑی پولیس کو دیکھ کر گاڑی کو بریک لگانی چاہیے یا دوسو کی سپیڈ سے گاڑی بھگانی چاہیے؟ گھرمیں چوری ہو تو پولیس کو فون کرنا چاہیے یا رشوت کا انتظام کرنا چاہیے؟ عام شہری اور دہشت گرد میں ہمارے محافظ کیسے فرق کریں گے؟آخر ہمارے ہی ٹیکسوں سے پلنے والی ہماری پولیس سے ہم ہی اِتنے ہراساں کیوں ہیں؟ یہ تمام سوالات تب ہی جنم لیتے ہیں جب کوئی پولیس گردی کا واقع ہوتا ہے اس سے پہلے ہمیں یہ سوچنے کا شاید وقت ہی نہیں ملتا کیوں کہ یا تو ہم بہت بے حس ہو چکے ہیں یا پھر ہم اپنی ذمہ داریوں بہت ذیادہ مصروف ہیں۔ اب حال ہی میں جو ساہیوال کا واقع پیش آیا ہے جس پر پورے ملک میں واویلا ہے کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ورنہ حکومت کو گھر جانا چاہیے کیا واقعی حکومت کے گھر جانے سے معصوموں کے سر سے یتیمی کا بھیانک ٹیگ اُتر جائے گا کیا والدین کی شفقت مل پائے گی انِ بچوں کو۔ کفالت کون کرے گا اور مستقبل کی ذمہ داری کون سنبھالےگا؟ لگتا ہے حکومت کو گھر جانا ہی چاہیے کیونکہ اس سے پہلے جو سانحات ہوئے اس میں تو گزشتہ حکومتوں نے تو مستعفی ہونے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔
حق کی بات ہے سرکار جو بھی استعفوں سے گھاؤ نہیں بھرتے جناب معذرت لیکن اگر قانون کے رکھوالوں کو وردی کے ساتھ قانون کی ا ب پ بھی سکھائی جاتی تو آج ہم ایسے سانحات سے بچ سکتے تھے مگر نہیں یہاں تو قانون کے ہاتھ انتے لمبے ہیں کہ دہشت گردوں سے ہو کر عام شہریوں تک پہنچ گئے ہیں حیرت کی بات ہے سی ٹی ڈی کی برق رفتار گاڑی ایک نارمل رفتار کی گاڑی کا لاہور سے ساہیوال تک پیچھا کرتی ہے اور اس دوران یہ بھی نہیں دیکھ سکی کہ جس گاڑی کو نشانے پر رکھے بیٹھی ہے اُس میں ایک خاندان کے افراد والدین،بچے اور ڈرائیور موجود ہے پھر بھی اگر کاروائی لاذم تھی تو ڈائرکٹ گولی کس قانون کے تحت چلائی گئی اور اتنا سا قانون تو سب جانتے ہیں کہ مجرم یا ملزم کو گولی مارنی طے ہو تو پاؤں کے گھٹنے پر ماری جاتی ہے اور اہلِ خانہ ساتھ ہو تو وہ بھی نہیں پر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس قانون کی رُو سے والدین کو ننھے بچوں کے سامنے بری طرح سے درگور کیا گیا جو کہ اپنی آنکھوں سے سب دیکھ کہ بھی بتانے کی خاصا سکت بھی نہیں رکھتے ایک بار پھر ہیٹس آف پاک پولیس آپ نے پھر گلشن کو ویراں کر دیا خیر واقعہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔
اصل حقیقت تو تفصیلی رپورٹ آنے کے بعد ہی سامنے آئے گی لیکن صدرِ پاکستان اور وزیراعظم سمیت تمام سیاسی قائدین کی مذمتوں کو سلسلہ بھی جاری ہے مگر اعلٰی حکام سے بس یہی اپیل ہے کہ اب مذمت نہیں مرمت ہونی چاہیے ریاست مدینہ کے قیام کیلئے سب سے پہلے ریاستِ مدینہ کے قوانین پہ عمل پیرا ہونا ضروری ہے پیسوں کی صورت میں ہرجانہ کبھی اجڑے ہوئے گلشن میں بہار نہیں لا سکتا اب وردی نہیں محافظ چاہیے وگرنہ عام شہری کو اپنی شناخت کیلئے کیا کرنا ہو گا جس سے وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی کو بچا سکے۔۔۔۔ اور اسی شش و پنج میں رہے گا کہ وردی والے ہمارے محافظ ہیں یا قاتل؟
سعدیہ عارف ماس میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز نے منسلک رہ چکی ہیں، ان دنوں لاہور تعلیمی بورڈ سے منسلک ہیں۔