گاما پہلوان کا اصلی نام غلام محمد تھا۔ امرتسر، بھارتی پنجاب میں 1880ء کو پیدا ہوئے، قد 5 فٹ اور 7 انچ تھا، گاما کے بڑے بھائی امام بخش بھی مشہور پہلوان تھے۔ تعلق کشمیری خاندان سے تھا۔ گاما اور ان کے بھائی کی پہلوانی کے اخراجات پٹیالہ کے مہاراجہ برداشت کرتے تھے۔
ورزش اور تربیت
گاما پہلوان روزانہ بیٹھکیں اور 3000 ڈنڈ لگاتے تھے۔ گاما بیٹھکیں لگانے کیلیئے 95 کلو وزنی بھاری ڈِسک اٹھاتے اور ورزش کرتے تھے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سپورٹس میوزیم، پٹیالہ، پنجاب، بھارت میں آج بھی یہ ڈِسک موجود ہے۔
خوراک
گاما پہلوان کو مہاراجہ آف دتیہ روزانہ 2 بکروں کا گوشت ، 3 سیر مکھن، 6 گیلن دودھ، 3 ٹوکریاں پھل، اور 20پاؤنڈ بادام کی سردائی، فراہم کرتا تھا ۔
تاریخی مقابلے
گاما پہلوان اپنے زمانے کے رستمِ زماں(ولڈ چیمپئین) رہے۔ گاما نے اپنے 50 سالہ کیریئر میں 5000 میچ کھیلے اور کبھی ایک میچ نہیں ہارے۔1916ء تک گاما نے سارے ہندوستانی پہلوانوں بشمول پنڈت بدو برہمن کو شکست دے دی تھی۔ اکتوبر 1910ء کو گاما نے جان بُل بیلٹ اور ولڈ ہیوی ویٹ چمپیئن شپ کا ٹائٹل جیتا۔
گاما پہلوان نے گوجرانوالہ کے مشہور پہلوان رحیم بخش سلطانی والا سے لڑے، رحیم سلطانی والا، کشمیری پہلوان عمر بخش کے پوتے تھے۔ رحیم بخش سلطانی والا کا قد 6 فٹ 9 انچ تھا اور گاما کا 5 فٹ 7 انچ اور ان دونوں میں کانٹے دار مقابلہ ہوا اور یہ میچ ڈرا ہو گیا اور پھر اگلی بار ایک عرصہ بعد گاما رحیم بخش سے دنگل لڑا اور بلاآخر گاما کو جیت نصیب ہوئی جو کہ گاما نے اپنی زندگی کی مشکل لڑائی قرار دی۔
مغرب جا کر گاما نے امریکی مشہور پہلوان بنجامن رولر کو 1 منٹ 40 سیکنڈ میں شکست دی۔
ولڈ چمپیئن سٹینس لاس زبسکو کو گاما نے 40 سیکنڈ میں شکست دی۔
گاما نے سویڈن سے تعلق رکھنے والے ولڈ چیمپئین جیسی پیٹرسن، فرانس کے مورائس ڈیریاز اور، سوئٹزرلینڈ کے ، یورپی چمپیئن جوہان لیم کو ہرایا۔
برطانیہ میں گاما نے بنجامن رولر کو 15 منٹ میں 13 بار ہرایا اور گاما نے میچ کے دوران ولڈ چیمپئین کے دعوے دار جن میں جاپانی جوڈو چیمپئین ٹارو میاک، ولڈ چیمپئین فرینک گوچ اور جارج ہیکن سمڈ کو چیلج کیا لیکن ان سب نے لڑنے سے انکار کر دیا پھر گاما نے مزید 20 پہلوانوں کو ایک کے بعد ایک مقابلے کا کہا اور جیتنے والے کو پیسے کا انعام کا کہا لیکن سب نے انکار کر دیا۔
ناقابل فراموش اعزاز
گاما نے 1902ء میں22 سال کی عمر میں 1200 کلو وزنی پتھر اٹھایا اور اپنے سینے تک لایا اور کچھ قدم چلا بھی یہ پتھر آج بھی بھارت کے بارودا میوزیم سایاجی باغ میں پڑا ہوا ہے اور اس پر لکھا ہے “یہ پتھر 23 دسمبر 1902ء کو گاما نے اٹھایا”، میوزیم حکام کا کہنا ہے اس پتھر کو اٹھانے کیلئے ہائڈرالک مشین کا استعمال کیا جاتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کرنے میں اور 25 آدمیں سے یہ پتھر اٹھانا بھی مشکل ہے اور میوزیم کے رجسڑرار میں انٹری نمبر 10-10 میں لکھا ہے کہ یہ پتھر 1912ء میں اس میوزیم لایا گیا۔آج کی تاریخ میں بہت بڑے ویٹلفٹر جو کہ سٹیرائڈز کا استعمال کر کے بھی 600 کلو وزن نہیں اٹھا پائے۔
خاندانی پسِ منظر
گاما کا خاندان آج بھی موجود ہے گاما کے بیٹے اپنے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے لیکن گاما کی سگی نواسی کلثوم نواز ہیں جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تین بار بنے وزیرِاعظم میاں نوازشریف کی اہلیہ ہیں۔ اس کے علاوہ بھولو پہلوان اور بھولو برادران جن میں ناصر بھولو بھی ان کے رشتہ دار ہیں اور اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں بلدیاتی سطح کے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاسدان حمزہ بٹ بھی گاما کے ۔سگےنواسے ہیں ۔
گاما کو خراجِ تحسین
ہمارے پاکستانیوں کو اپنے پہلوان کا تو پتا نہیں لیکن مغربی دنیا میں گاما کی بہت پہچان ہے، بروس لی کراٹے کی دنیا کے بادشاہ گاما کے مداح تھے اور ان کی ٹریننگ اور ورزش کے طریقوں کے آرٹیکل پڑھتے تھے اور ان کو عملی طور پر بھی اپناتے تھے۔
اسکے علاوہ سڑریٹ فائٹر گیم میں ڈارن مسٹر کا کردار بھی گاما پر بنایا ہے ایک اور گیم شیڈو آف کنوینٹ میں گاما کا کردار کا پہلوان ڈالا گیا ہے، اس کے علاوہ جاپانی کامک کتاب ٹائگر ماسک میں بھی گاما کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔
وفات
تقسیم ہند کے بعد گاما اور ان کا خاندان امرتسر سے لاہور ہجرت کر گیا۔
گاما پہلوان دَمہ اور دل کے مرض میں مبتلا تھے ایک بھارتی ہندو صنعتکار جی ڈی برلا نے گاما کی خود سے ماہانہ پینشن لگا رکھی تھی جو گاما کا اور پہلوانی کا مداح تھا آخر کار گاما 1960ء کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
Load/Hide Comments