عظمی ہم شرمندہ ہیں ، تحریر: مہرین جمیل

کچھ اچھی یا بری خبریں ہم روز ہی پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں لیکن کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سن کر سمجھ نہیں آتا کہ فورا کیا رد عمل دیا جائے ، کیا بولا جائے اور اپنے احساسات کو کیسے قلمبند کیا جائے، کیسے ظلم کی داستان کو لوگوں تک پہنچایا جائے ۔
گھریلو ملازمہ عظمی کی خبر سنی تو یقین مانیے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ایک پل کے لئے دماغ نے سوچا کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے، اتنا ظلم کہ شاید الفاظ بھی کم پڑ جائیں لیکن اس انسان کی تکلیف کا مداوا نہ ہوسکے ۔ عقل حیران ہے کہ ہم انسان اتنے ظالم ، اتنے سفاک ، اتنے سنگ دل کیسے ہو سکتے ہیں یہ خبر پڑھنے کے بعد مجھے واقعی نیند نہیں آئی تو اٹھ کر قلم اٹھایا اور اپنے احساسات کو لفظوں کا پیراہن دیا ۔ وہ عورتیں کس ذہنیت کی مالک ہیں جنہوں نے معصوم عظمی کے ساتھ اتنا سفاکانہ رویہ اپنایا ایک ہنستی کھیلتی بچی جو ماں باپ کی غربت دور کرنے کے لئے اپنے بچپن کی رنگینیوں کو چھوڑ کر آپکے گھر ملازمہ بن کر آئی کیا یہ اذیت کم ہے جو اس پر مزید ظلم بھی کیا جائے ، انسانیت کی اس قدر تذلیل کی گئی کہ ایک چودہ ، پندرہ سال کی بچی ساٹھ ستر سالہ ایک بزرگ خاتون دکھائی دینے لگی جو شاید اپنے حواس میں بھی نہیں اور اس قدر اجڑی حالت ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے کسے پرانے لاعلاج مرض میں مبتلا ہو۔ بکھرے ہوئے بال ، پچکے ہوئے گال اور مار پیٹ سے سوجھی ہوئی آنکھیں اور لاغر جسم یہ تھی وہ کم سن بچی جس نے بچپن میں ہی وہ دکھ اٹھائے جن کو برداشت کرنے کے لئے ایک عمر اور حوصلہ چاہیئے ۔ اس کی یہ حالت سالوں میں نہیں ہوئی بلکہ صرف آٹھ ماہ میں ان سفاک عورتوں نے معصوم بچی ہر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے ۔اس کی نہ صرف زبان کاٹی گئی بلکہ جسم کے نازک حصوں پر بھی کٹ لگائےگئے حتی کہ ہڈیاں تک ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اتنا ظلم ہوتا رہا اور وہ بچاری چپ چاپ برداشت کرتی رہی اور اس جہان فانی سے منہ موڑ گئی ۔اور اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گئی انسانیت کے منہ پر تمانچہ مار گئی اور بتا کر گئی کہ اب اسے ہماری کسی بھی ہمدردی کی ضرورت نہیں ۔وہ اپنی اذیت نا کسی کو بتا سکی نا کوئی سننے والا تھا اور نا کوئی سمجھنے والا اور ہمیں بھی موقع تب ملا جب وہ زند ہ نا رہی اور اس بچی کو کس اذیت سے مارا گیا خدا کی پناہ، پھر لاش کی جو بے حرمتی کی وہ ایک الگ داستان ۔
اس بے قصور ننھی جان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ اس نے بے رحم مالکن کی پلیٹ سے ایک نوالہ اٹھا لیا تھا اور اس سفاک و جلاد عورت نے اس کی اس گستاخی پر اس کے سر پر زور سے کچھ دے مارا ۔اس کے سر پر چوٹ اس شدت سے لگی کہ خون اندر ہی بہہ گیا اور وہ تکلیف سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جاں دے گئی۔ ہسپتال پہنچانا تو بہت دور کی بات وہ خواتین بجلی کے کرنٹ لگا لگا کر اس کو شاکس دیتی رہیں اور جب یقین ہو گیا کہ اب کچھ ممکن نہیں اس بچی کودنیا کی قید سے رہائی مل گئی تو ان عورتوں کو سکون پھر بھی نہیں آیا اور لاش کو بوری میں بند کر کے گندے نالے میں پھینک دیا گیا۔ یہ واقع کہیں جنگل میں نہیں ہوا بلکہ لاہور کے روپوش علاقے میں پیش آیا۔عظمی زندہ تھی تو موت سے بد تر زندگی ملی اور مر گئی تو ایسا سلوک ہوا کہ عظمی ہم شرمندہ ہیں ۔
اس بچی کے باپ کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ غریب ہے اسکے پاس سوائے رونے اور خدا سے انصاف کی اپیل کرنے کے کوئی راستہ نہیں ۔ وہ شاید کیس کی پیروی بھی نا کر سکے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں جہاں امیر طبقہ ناصرف غریبوں کا استحصال کرتا ہے بلکہ غلامانہ سوچ کے تحت ان کی تذلیل بھی کرتا ہے خواہ وہ انسان خود انصاف فراہم کرنے والا ہی کیوں نا ہو ۔طیبہ کیس تو آپکو یاد ہی ہوگا جسٹس راجا خرم علی خان کی بیوی ماہین ظفرنے جس قدر ظلم کیا پھر اس بچی کے باپ پر دباو¿ بھی ڈالا گیا کہ کیس واپس لیا جائے بالاآخر چیف جسٹس صاحب کو نوٹس لینا پڑا ۔جہاں قانون کے رکھوالے ہی قانون شکن بن جائیں پھر عام عوام کو ہی آگے آنا پڑتا ہے جن کی آواز ہم میڈیا والے بنتے ہیں اس پر بھی کچھ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا صرف منفی واقعات دکھاتا ہے لوگوں کو آگاہی نہیں دیتا اور معاشرے کی اچھائی نہیں دکھاتا اگر ہم لوگ آوز نا اٹھائیں تو عظمی اور طیبہ جیسی معصوم بچیاں ظلم کا شکار ہوتی رہیں اور کوئی ظلم سے پردہ اٹھانے والا نا ہو ۔ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں انصاف نہیں دے سکتے جہاں کچھ اچھا ہوتا ہے وہ بھی بتاتے ہیں لیکن غلط بات پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے ہم لوگوں کو سمجھانے میں دن رات کوشاں ہیں لیکن کچھ آپ لوگ خود آگے بڑھیں اور ہمارا ساتھ دیں کیوں کہ تنقید کرنا بہت آسا ن ہے اور کسی کے حق کے لئے لڑنا بہت مشکل۔ صحیح بات کرنے پر میڈیا والوں کو بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ ٹوئینٹی فور نیوز کے اینکر پرسن مکرم کلیم نے جیسے اس معاملے سے پردہ اٹھایا اس کے لئے بہت بہادری اور ہمت چاہئے ۔
عظمی جیسی بہت سی معصوم زندگیوں کو ہم ظلم سے بچا نہیں سکے کچھ ظلم کا شکار ہو کر مر گئیں اور کچھ زہنی اذیت میں مبتلا ہیں ایسی خبر سن کر واقعی لگتا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور بس دل سے ایک آہ نکلتی ہے ۔ہماری دعا ہے کہ خدا عظمی کو جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے اور پوری کوشش ہے کہ اس کو انصاف ملے ہم ہر دروازہ کھٹکھٹائیں گے اللہ نے چاہا تو مرنے کے بعد ہی سہی لیکن عظمی کو انصاف ضرور ملے گا تا کہ کوئی اور بچی عظمی نا بن سکے ایسے لوگوں کو ایسی عبرت ناک سزا ملنی چاہئے کہ آئندہ معاشرے میں ایسی حرکت کرنا تو دور کی بات سوچنے سے پہلے بھی لوگ سو بار سوچیں ۔ اسی طرح اذیت میں ان عورتوں کو رکھا جائے تا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو کہ عظمی پر کیا بیتی تھی ۔ چاہے اس کے لئے قانون میں ترمیم ہی کیوں نا کرنی پڑے ان سفاک لوگوں کو گریبان سے پکڑ کر کٹہرے میں لایا جائے اور عبرت کا نشان بنایا جائے ۔


مہرین جمیل سپیرئیر یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان دنوں روہی نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کام کررہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں