بلند اخلاق ہی کامیابی کی بنیاد ہے، تحریر: مہرین جمیل

ہمارے معاشرے میں کچھ چیزیں ایسے سرایت کر چکی ہیں کہ شاید اب ہم بھی انہیں زیادہ معیوب نہیں سمجھتے ۔ کمزور اور طاقتور میں فرق ، قانون تک رسائی اور انصاف کا دوہرا معیار اس کی کچھ زندہ مثالیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ خطرناک ہو تا چلا جا رہا ہے ۔ ہم ان پڑھ کو تو شاید سمجھا سکتے ہیں لیکن پڑھے لکھے ان پڑھ کو سمجھانا نا ممکن ہے ۔تعلیم یاقتہ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس علم ہے یا آپ علم کے طلب گار ہوں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ لوگوں سے منفرد ہو جاتے ہیں کردار میں ، اخلاقیات میں ، تہذیب میں ، اچھے برے کے فرق میں اور آپکو انصاف اور نا انصافی میں فرق نظر آتا ہے مگر یہاں معاملہ ہی الٹ ہے ۔
پاکپتن میں کچھ دن پہلے ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں ڈی پی او پاک پتن ماریہ محمود نے ایک بزرگ کا نا صرف گریبان پکڑ کر جنجھوڑا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا ۔واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہیں کہ تبدیلی سرکار نے بیورو کریسی اور اعلی افسران کو کھلی کچہری لگانے کے کے احکامات جاری کئے ہیں تا کہ لوگوں کے مسائل کا خاتمہ کیا جا سکے اور وسائل کو ان کے دروازے تک پہنچایا جائے۔ اسی سلسلے میں ڈی پی او ماریہ محمود بھی کھلی کچہری لگا کر بیٹھی تھیں، ملکہ عالیہ براجمان تھیں کہ پچھتر سالہ بزرگ نے ڈی پی او صاحبہ کے سر پر ہاتھ پھیرا یا سر پر پیار دیا جو ہماری قدیم تہذیب کا حصہ ہے ۔ہماری روایت ہے کہ بزرگ بچوں کے سر پر ہاتھ پھیر کر شفقت کا اظہار کرتے ہیں ۔ بزرگ آدمی کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ بیورو کریسی اور اعلی افسران ہر رشتے سے بالا تر ہیں وہ پڑھے لکھے ہیں تو انکی گردن میں سریا ہے کیوں کہ انہوں نے تعلیم حاصل کر کے پوری قوم پر احسان کیا ہے اور پھر خدا نے انہیں عہدہ دے دیا تو سونے پر سہاگہ ، بس اسی اثر رسوخ اور انا کے نشے میں محترمہ نے اس گستاخی پر بابا جی کو کھلی کچہری میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان تزلیل کا نشانہ بنایا ۔ ہم جیسے کچھ لوگ جو آج بھی بزرگوں کے احترام کو لازم سمجھتے ہیں وہ میدان میں اتر آئے کہ محترمہ اپنے اس غلط اقدام پر معافی مانگیں تو کچھ لبرل لوگ بھی سامنے آئے جنہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے انہوں نے الٹی سمت میں ہی چلنا ہے ۔ ان لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ عورت ہیں لہذا وہ نہیں چاہتیں کہ انہیں کوئی ہاتھ لگائے تو بابا جی نے ایسا کیوں کیا ؟
تو میرا سوال یہ ہے کہ بزرگ کے ایسا کرنے پر اگر انکو برا لگا بھی ہو تو انہیں آئندہ کے لئے منع کر دیتیں کہ دوبارہ ایسا نا کریں انہیں یہ بے تکلفی پسند نہیں تو نا بزرگ آدمی ذلیل ہوتا اور محترمہ کی تربیت پر بھی حرف نا آتا ۔زرا سوچئے، بھرے مجمے میں کوئی بھی انسان کسی بھی اعلی افسر کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرنے
کا نہیں سوچ سکتا جبکہ آنے والا خود سوالی بھی ہو اور غصہ صرف یہاں پر ختم نہیں ہوا محترمہ نے بزرگ شہری پر جھوٹا مقدمہ بھی درج کروا دیا۔ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کہاں کا انصاف ہےَ ؟ شاید وہ بھول چکی تھیں کہ یہ وہ غریب اور مسائل زدہ لوگ ہیں جن کے ٹیکس کے پیسے سے ان محترمہ کو بھاری بھرکم تنخواہ اور مراعات مل رہی ہیں
ڈی پی او ماریہ محمود کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس جرم کی سزا دیں جو کیا ہی نہیں گیا ۔
یاد رکھیں کہ یہ وقت ہم پر بھی آنا ہے آج ہم بزرگوں کا احترام نہیں کریں گے تمیز اور تہذیب ختم کر دیں گے تو کل کو ہم بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں اس وقت شکایت مت کیجئے گا ۔
بیورو کریسی تو ایک طرف ہمارے معاشرے کا مہذب ترین پیشہ ڈاکٹرز جن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جن کو ہم سب مسیحاسمجھتے ہیں انکی بے حسی کی ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ آج کا کالم کم پڑ جائے لیکن قصے ختم نا ہوں۔ کہیں زچہ و بچہ رکشوں اور سڑکوں پر پڑے ہیں تو کہیں لیبر روم کے باہر ایڑھیاں رگڑ رہے ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے وقت عورت جس مشکل مرحلے سے گزر رہی ہوتی ہے دشمن بھی چند لمحوں کے لئے دشمنی بھول جاتا ہے اور مدد کے لئے دوڑتا ہے مگر ہمارے مسیحا اپنی زندگی میں کچھ ایسے مگن ہیں کہ پوچھئے ہی مت ، انکی ایک اپنی ہی دنیا ہے ،پہلے وہ پڑھتے ہیں تو دنیا سے کٹ جاتے ہیں پھر جناب وہ ڈاکٹر بن کر موبائل میں دنیا بسا لیتے ہیں ۔ رہی سہی کسر انکے مطالبات پوری کر دیتے ہیں جن کو پورا کروانے کے لیے وہ آئے دن سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور انکے مطالبات کتنی قیمتی زندگیوں کے چراغ ہمیشہ کے لئے گل کر دیتے ہیں انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ایسے واقعات کے بعد بھی انکے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چند دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری کہ ڈی جی خان میں زچہ و بچہ وارڈ کے باہر مر گئے۔ ہسپتال کے اندر جگہ نہیں ملی اور بچہ ہسپتال کے باہر پیدا ہوا اور پھر اپنی ماں کو ساتھ لئے اس ظالم دنیا سے دور چلا گیا شاید وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ یہاں مسیحا نہیں بھیڑئیے رہتے ہیں ، ماں اور بچہ دونوں ڈاکٹرز کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ نرسس اور ڈا کٹرز انکے پاس کھڑے موبائل فون استعال کرتے رہے ،خوش گپیوں میں مصروف رہے لیکن کسی نے آگے بڑھ کر انکی مدد نہیں کی نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ہم مانتے ہیں کہ ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اس کی وجہ کیا ہے ،کیا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔کیا ہم انسان بھی نہیں ؟ کیا ہم مرتے ہوئے کو چھوڑ دیں اور سامنے بیٹھے تماشا دیکھیں ہم اشرف المخلوقات ہیں اس بات کا احساس کب ہو گا ؟؟ شاید ہم لوگ خدا کا خوف بھول گئے ہیں ۔
حکومت سے سہولیات کے مطالبات تو سب کرتے ہیں مگربحثیت ایک قوم خودکیا گل کھلا رہے ہیں کہاں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے ۔ تبدیلی صرف اعلی سطح پر نہیں ہمیں اپنے رویوں میں بھی کرنی ہے یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم فرائض ٹھیک سے انجام د ے رہے ہیں یا نہیں ، حلال رزق کے نام پر حرام رزق تو گھر نہیں لے کر جا رہے ۔
تیسرا اور اہم مسئلہ جس کے بارے میں ہم آئے دن خبروں میں سنتے ہیں کہ ہر دوسرے دن کوئی بچہ یا بچی زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو بچے بچ جاتے ہیں وہ ساری زندگی کے لئے مریض بن جاتے ہیں۔
زینب کی طرح ہر بچے کو انصاف نہیں ملتا ، عدالتیں بھری پڑی ہیں ایسے ہزاروں کیسز سے اور بڑی تعداد تو بدنامی سے بچنے کے لئے ایسے کیس کو رپورٹ ہی نہیں کرتی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ تازہ رپورٹس کے مطابق قصور اور باقی جگہوں پر ان سب سرگرمیوں میں ملوث افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تو پتا چلا کہ اہل علم ایک بار پھر بازی لے گئے کیوں کہ زیادہ تر کیسز میں پڑھا لکھا اوربا اثر طبقہ شامل تھا مطلب امیر کلاس اور سیاسی اثر و رسوخ والے لوگ ، چلو کوئی غریب یا جاہل ہو تو بات سمجھ بھی آتی ہے اب ان پڑھے لکھے اور امیر لوگوں کا کیا کریں ۔ ہمارے معاشرے میں کچھ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے سب سے پہلے قانون کی بالادستی کیوں کہ سزا اور جزا کا سلسلہ درست ہو گا تو ہی انصاف ملے گا اور لوگوں کو خوف ہو گا ۔
اور رہی بات ڈاکٹرز او ر بیورو کریسی کی تو یہ لوگو ایم بی بی ایس اور سی ایس ایس کرنے میں کئی کئی سال لگا دیتے ہیں انہیں ان سب کے ساتھ اخلاقیات کے کورس بھی کروائے جائیں تا کہ وہ ہر خاص و عام کے ساتھ اپنا رویہ درست رکھیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نا کریں ،دینی تعلیم عام کی جائے تا کہ لوگوں میں کچھ خدا کا خوف پیدا ہو ،بد تہذیبی ،بے حسی ، بے راہ روی اور بہتان تراشی جیسی بیماریاں جو ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکی ہیں انہیں جڑ سے ختم کیا جا سکے ۔


مہرین جمیل سپیرئیر یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان دنوں روہی نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کام کررہی ہیں۔ مختلف اخبارات اور نیوز ویب سائٹ کیلئے کالم لکھ کر سماجی مسائل کو اجاگر کرنا ان کا مشغلہ ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں