ترقی کے ساتھ ساتھ مواصلاتی ذرائع بھی ترقی کر رہے ہیں۔جدید دنیا میں رابطوں کا ایک اہم ذریعہ سوشل میڈیا بھی ہے جبکہ کتاب اور انسانی سماج کا تعلق بہت قدیم ہے۔کتاب ایک مفصل ذریعہ رہی ہے خیالات کی ترویج کا۔کتاب کا اہم عنصر معاملات کا گہرائی سے جائزہ لینا،ان کی وجوہات کو سمجھنا،مختلف نظریات کا پیش کیا جانا،نظریات کا جائزہ لینا اور نتیجے میں ایک حقیقی سمجھ بوجھ سے آراستہ ذہانت کا سامنے آنا
۔سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے ہی الیکٹرونک میڈیا کی آمد نے ہی منظر نامے کو پروپیگنڈہ کے ہتھیار کی مدد سے دھندلانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ لیکن ایک مناسب ضابطہ اخلاق بر حال موجود تھا۔مگر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ میرا خیال یہ ہے کتب بینی کو مہذب معاشروں میں بھی سوشل میڈیا کی آمد سے د ھچکا ضرور لگا ہے۔ ہمارے ہاں کتب بینی کا ر حجان پہلے ہی کم تھا سوشل میڈیا کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکا۔ میرے خیال کے مطابق ایسے طالب علموں کی تعداد بہت کم ہو گی جو کہ سوشل میڈیا پر باقاعدگی کے ساتھ کتب بینی کرتے ہوں گے۔بہت سے طالب علموں کی تعداد ایسی ہو گی جو کہ سوشل میڈیا پر کتابیں پڑھتے ہی نہیں ہوں گے۔ وہ اپنا وقت آن لائن بات چیت کرنے فلمیں ڈرامے دیکھنے گانے سننے آن لائن گیمز کھیلنے میں ضائع کر تے ہوں گے۔بہرحال سوشل میڈیا نے معاملات کو مزید گدلا ضرور کر دیا ہے
پروپیگنڈہ کے زریعے حقائق کو مسخ کرنا ایک عام چلن ہو گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف روشن پہلو یہ بھی ہے کہ ریاستی بیانیے سے ہٹ کر سوچنے والا ایک کتاب دوست حلقہ بھی سوشل میڈیا پر تشکیل پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں کتب خانوں کی وسیع پیمانے پر موجودگی کے ساتھ ساتھ کتابوں کی پی ڈی ایف فارم اور وائس فارم میں فراہمی نے بھی اب تک کتاب سے معاشرے کاتعلق قائم رکھا ہے۔ مختلف پبلشرز طالب علموں کی سہولت کیلیے سوشل میڈیا پر اشتہاری مہم چلا رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف طالب علموں کی طرف سے مختلف کتابوں پر کیے گئے تبصرے بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔لکھاریوں اور دیگر سوچ بچار کرنے والے حلقوں کی سوشل میڈیا پر موجودگی بھی کتب بینی کیلیے حوصلہ افزا چیز ہے۔گو کہ مجموعی طور پر میرے خیال کے مطابق کتب بینی کے لیے حالات بہتر نہیں لیکن سوشل میڈیا کی وسعت سے موازنے کی سوچ بڑھنے کے امکانات روشن ہیں اور اسی بنیاد پر ہم اپنے ہاں کتب بینی کے مستقبل کے بارے میں زیادہ نہیں تو تھوڑی امید بر حال رکھ سکتے ہیں۔۔
کتاب کیا ہے؟
کتاب ایک ایسی تصنیف جو ہاتھ سے تحریر کی گئی ہو یا چھاپی گئی ہو اور وہ ایک یا ایک سے زائد جلدوں پر مشتمل ہو۔ ہم کتاب کو اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ لکھے ہوئے اور چھپے ہوئے صفحات کو یکجا کر کے پشت سے سی دیا گیا ہو۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق کتاب سے مراد ایک ایسا تحریری یا مطبوعہ مقالہ ہے جو متعدد صفحات پر مشتمل ہو اور جسے تہہ کرکے ایک طرف سے سجا دیا گیا ہو
کتاب کی اہمیت
کتابوں کا پیغام آفاقی ہوتا ہے۔ کتابیں کسی سوسائٹی کے افراد کی تربیت اور تعلیم میں جو کردار ادا کرتی ہیں، آج کا متمدن معاشرہ اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ کتابیں فرقہ واریت، علاقائیت اور قومیت جیسے محدود جذبوں سے ہٹ کر معاشرے کو انسان دوستی، بھائی چارہ اور روحانی قدروں کو جلا دیتی ہیں جس سے کتاب پڑھنے والے اور اس کے ارد گرد رہنے والے افراد پوری طرح مستفید ہوتے ہیں۔ کتاب اپنے پڑھنے والے کو ایک جذباتی پیغام ہی نہیں دیتی بلکہ اس کی شخصیت کو پوری طرح معاشرے کے لئے ایک مکمل زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی سکھاتی ہے اور دوسروں کے لئے اس کی شخصیت کو جاذب نظر اور پرکشش بھی بناتی ہے۔ آج کی ترقی میں کتاب نے جو مفید کردار ادا کیا ہے اس کی بدولت انسان نے تسخیر کائنات کے لئے کمندیں ڈالنی شروع کر دیں۔ آج وہ خلائی دور سے بڑھ کر چاند کی سرزمین پر اپنے قدم جما چکا ہے اور کائنات کے دوسرے سیاروں پر پہنچنے کی کوششوں میں اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تسخیر کائنات کے لئے چند گام اور بڑھنے کی دیر ہے۔حصول علم کا بنیادی ذریعہ کتاب ہے۔ کتب خانے کتابوں کا ذخیرہ کہلاتے ہیں۔ جو اپنے دامن میں عقل و دانش کے صدیوں پرانے جواہرپارے سمیٹے وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ بدلنے والی قوموں اور حالات زمانہ کے حقیقی خدوخال کی امین بن کر آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کافریضہ ادا کرتے ہیں۔
دور جدید میں عوامی کتب خانے قوم کے عمرانی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، ادبی، سائنسی اور فنی ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ معاش ہو یا معاد، دین ہو یا دنیا سب کا دارومدار علم پر ہے اور علم کے حصول کا اہم ذریعہ کتاب ہے۔ قلم، تحریر اور کتاب نے انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں ہمیشہ تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ کتاب اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے مختلف روپ اور شکلیں دھارتی رہی۔ مگر اس کا پیغام لوگوں اور قبیلوں تک کسی نہ کسی طرح متواتر پہنچتا رہا۔ اس پیغام کی روشنی میں اہل دانش اور مفکرین نے اپنی قوموں کے لئے گراں قدر کارنامے انجام دیئے۔ آج کی ترقی بلاشبہ کتاب کی مرہون منت ہے۔ انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے حالات اپنے ایجاد کردہ آلات کی بدولت کہیں سے کہیں پہنچا دیئے جبکہ بیسویں صدی کے اواخر میں انسان نے چاند و سورج پر کمندیں ڈال دیں۔ علم و سائنس کی ترویج و ترقی کے موجودہ دور نے انسان کی ترقی کے گزشتہ تمام ریکارڈز کی بساط الٹ دی۔ سائنس و تحقیق نے دنیا کی طنابیں سمیٹ کر رکھ دیں۔ اطلاعاتی سہولتوں کی بدولت تحقیق اور ایجادات ہر سال ہر ماہ اور ہر لمحہ کوئی نہ کوئی حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رہی ہے۔ ان تمام ایجادات و اختراعات کے پس پردہ وہ اطلاعاتی دھماکہ کارفرما ہے جس میں کتاب نے ایک اہم عنصر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔جہالت اور لاعلمی کو دور کرنے کے لئے کتابوں کو دوست بنانا ہو گا۔ کتب خانوں سے ناطہ جوڑنا ہو گا۔ عوام کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ باخبر شہری اپنے ملک کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے شہری کے اپنے ملک کے لئے اچھا کردار ادا کرنے میں اچھی کتابیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ معاشرہ کی تعمیر میں حصہ لینے کے لئے جدید سائنسی معلومات اور ٹیکنالوجی، ادب و تاریخ، عمرانیات و اخلاقیات جیسے مضامین کی درس و تدریس کے لیے کتابوں کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ضروری ہے تاکہ اس ملک کے عوام، عظیم قوموں میں باعزت زندگی گزار سکیں۔
کتابیں ہماری زندگی میں کب سے ٓارہی ہیں؟
انسانی تہذیب کے ارتقاء کی داستان کتاب اور کتب خانوں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس وقت بھی جب انسان کا ذہن کاغذ اور تحریر کے تصور سے ناآشنا تھا وہ ریت اور پتھر کی چٹانوں پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر اپنا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچانا جانتا تھابوہ اپنے خیالات، نظریات اور کارناموں کو مٹی کی الواح اور پیپائرس پر منتقل کرنے لگا۔ تحریروں اور دستاویزات کے ان ذخیروں کو جس جگہ محفوظ کیا گیا وہی کتب خانے کی ابتدائی شکل تھی۔ اس طرح پہلے انفرادی یا ذاتی اور بعد میں عوامی کتب خانے وجود میں آئے۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کی ابتدا اس وقت سے ہی ہو چکی تھی جب خالق کائنات نے حضرت آدم ؑ کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر زمین پراتارا۔ پروردگار نے اس وقت اپنے نائب کو ان تمام علوم سے نواز دیا تھا جن سے فرشتے بھی پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔کتاب کی ابتدا کی تاریخ جو ہم تک پہنچتی ہے اس کی ابتدا ہمیں دو مشہور اقوام کی تہذیبوں کے مطالعہ سے ملتی ہے۔ وادی دجلہ و فرات سے برآمد ہونے والی مٹی کی الواح نما کتابیں اور وادی نیل کی تہذیب مصر سے برآمد ہونے والی پیپائرس یعنی درخت کی چھال سے تیار کئے ہوئے کاغذ پر تحریری مواد۔ یہ دو قدیم تہذیبوں کے ابتدائی زمانے کی تحریریں کتاب کہی جاسکتی ہیں ۔ہم وادی دجلہ و فرات اور وادی نیل سے برآمد ہونے والی ان تحریروں کو جدید دور کی کتابوں کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔موہنجوداڑو (سندھ) ہڑپہ (پنجاب) اور مہر گڑھ (بلوچستان) سے کھدائی کے بعد جو کھنڈرات تہذیب جدید کے افق پر نمودار ہوئے وہاں سے برآمد ہونے والی پتھر کی چھوٹی چھوٹی تختیوں پر تصاویر اور تصوری خاکے دیکھ کر کتاب کے ابتدائی مراحل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مجتبٰی احمد گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کررہے ہیں۔ کتابیں پڑھنے اور تعلیمی موضوعات پر آرٹیکلز لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
ان کا ای میل پتہ یہ ہے: Mujtabaahmad852@gmail.com