مجھے یاد پڑتا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں جب ہم نے لیڈ پینسل جسے سادہ زبان میں کچی پینسل کہتے ہیں کے استعمال سے پین اور بال پین کے استعمال پر آئے تو بال پین کے ساتھ ٹِک ٹاک کرنے کا بڑا مزہ آتا تھا اور یہ ٹِک ٹاک تب کی جاتی تھی جب جماعت میں یا تو بڑا سنجیدہ لیکچر چل رہا ہوتا تھا یا پھر ٹیسٹ کے دوران دماغ کچھ سوچ نہیں پاتا تھا اور ہاتھ کچھ بھی لکھنے سے ہاتھ جوڑتے تھے تو ہمیشہ ٹِک ٹاک ہوتی رہتی اور اکثر اساتذہ اس ٹک ٹاک پر بُرا بھی مان جاتے کہ ڈسٹربنس ہوتی ہے یہ تو خیر کلاس کی بات تھی لیکن اس تیز رفتاری کے دور نے انسان کو اس قدر مصروف کر رکھا ہے کہ یقین مانئیے کہ جتنے آسمان پر تارے ہیں اتنی ہی انسان کی مصروفیات لگتی ہے۔ جیسے تارے گنتی میں نہیں آتے ویسے ہی اتنے کام ہیں کہ گننا مشکل ہے اوراُوپر سے سونے پہ سوہاگہ کہ گوروں کی نت نئی برقی ایجادات جس سے ہم سب مستفید تو ہوتے ہیں پر انہی ایجادات کے چکر میں مصروف بھی بہت ہیں۔
اب ایک چھوٹی سی انتہائی معیاری ایجاد ہے ہمارا سمارٹ موبائل۔جس میں موجود ساٹھ سے زائد ایسی ایپلیکینشنز ہیں جو ہزاروں کاموں کے ساتھ ہمیں خود کے ساتھ مصروف رکھتی ہیں ۔ان میں سے سب سے زیادہ فیس بک ، واٹس اپ، ایمو، انسٹا، ٹویٹر وغیرہ کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ ان ایپلیکیشنز کا ایک طرف فائدہ تو یہ ہے کہ انسان کو بنا کسی خرچ کے اچھی خاصی شہرت میسر آ جاتی ہے ماسوائے انٹرنیٹ کے خرچ کے ،جہاں جاؤ ایک سٹیٹس پر آپ کے سینکڑوں فالورز جان جاتے ہیں کہ فلاں وقت میں آپ کی ایکٹیویٹی کیا ہے ان ایپس کو سوشل میڈیا کا بھی نام دیا گیا ہے مطلب ایسا پروڈکشن ہاؤس جو ہر کسی کی جیب میں ہے۔
بس اہلِ خانہ ہی نہیں جاتے کہ موصوف کس قدر مشہور ہیں ویسے تو ان تمام ایپلیکیشنز کا مقصد تقریباً ایک جیسا ہی ہےکہ پیغام رسانی اور روزمرہ کی ایکٹویٹیز کو لوگوں کے ساتھ شیئیر کرنا ہے مگرآج کل ایک اور مزے دار ایپ ٹِک ٹاک ہے جس کی لپیٹ میں پاک و ہندوستان کے تمام تر فارغ افراد آ رہے ہیں ،اچھا یہ ایپ ہے بڑی مزے کی ،اس میں لگ بھگ سارے گانے اور بہت سے مشہور ڈائیلاگز ہیں جس پر صارف اپنا ٹیلنٹ دکھاتا ہے کہ جو پہلا کیا گیا ،میں اس جیسا یا اس سے اچھا پرفارم کر سکتا ہوں۔ کیا طالبِ علم ،کیا مزدوی کرنے والا سب اس ایپ کے ذریعہ خود کو کنگ آف ایکٹینگ سمجھنے لگے ہیں اور تو اور ہماری برقعہ پوش بچیاں ،جن کی ویسے کسی نے صورت نہیں دیکھی ہوگی ٹِک ٹاک پر وہ بھی کرینہ اور کترینہ بن کے کمال کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ خیر ٹیلنٹ کسی بھی پلیٹ فارم کا محتاج نہیں ہے اس ایپ نے تو اور آسان کر دیا کہ جس کو موقع نہیں مل سکا اپنا ہنر دکھانے کا، وہ اس ایپ کے ساتھ ہزاروں کو اپنا فین بنا رہا ہے۔
اس ایپ میں اکثر یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ بولی وڈ کے ستاروں سے مشاہبت رکھنے والے افراد ایک طرف اوریجنل اور ایک طرف اس جیسی صورت رکھنے والے کی ویڈیوز بنا کر پبلک کرتے ہیں جس سے فالورز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ویسے فارغ افراد کے علاوہ بہت سے میڈیا انڈسٹری کے لوگ آفیشلی اس ایپ کا استعمال کررہے ہیں تا کہ وہ اپنی شہرت کو نہ صرف برقرار رکھ سکیں بلکہ مزید مداح بھی بنا سکیں۔اسکے علاوہ ان کے فالورز کو بھی یہ سہولت مل جاتی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ ستارے کیساتھ ڈو اٹ ویڈیوز بنا کر اپنے دل کی تسکین حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ تو مشہور ہی اس ایپ کی بدولت ہیں جیسے پچھلے دنوں ایک بڑی افواہ تھی کہ ایک شادی میں دلہن تیار ہو کر جب اسٹیج پر آئی تو سب نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تو ٹِک ٹاک والی خاتون ہیں، کیا کمال ویڈیوز ہوتی ہیں انکی، تو سسرال والے خاصہ بُرا مان گئے کہ انکی بہو اچھی خاصی شہرت رکھتی ہے ۔اب کوئی یہ سمجھ رہا ہو گا کہ پرانے لوگ ایسی باتوں کا بُرا مناتے ہیں ،اب ہم ٹھہرے پاکستانی اورہماری ثقافت ناچ گانا نہیں ہے ،یہ بات اب سمارٹ موبائل نہیں جانتا، وہ تو نت نئی ایپلیکیشنز صارف کو متعارف کرواتا رہے گا ویسے مذہبی و ثقافتی قدروں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے ٹِک ٹاک ایپ کو دس جنوری کو مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان تو کیا گیا تھا مگر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔شاید یہ بھی بس سرکاری ہی اعلان تھا ویسے ایسی ایپ کا بند ہونا کوئی نقصان دہ تو تھا نہیں، اگر اس ٹِک ٹاک جیسی ہماری مذہب و ثقافت کو ڈسٹرب کرنے والی ایپ کو مکمل طور پر بین کیا جائے تو ہماری نوجوان نسل تو اپنے اصل مقصد کو پہچان سکے وگرنہ تو سوشل میڈیا نے ہمارے نوجوانوں کو اتنا مصروف کر رکھا ہے کہ اہلِ خانہ میں فاصلہ اور سینکڑوں غیر اپنے بنا رکھےہیں اگر کبھی نیٹ سروسز کچھ وقت کیلئے میسر نہ ہو تو پتا چلتا ہے کہ گھر والے بھی اچھے لوگ ہیں ۔
سعدیہ عارف میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکی ہیں، ان دنوں لاہور تعلیمی بورڈ سے منسلک ہیں۔سعدیہ شش و پنج کے مستقل عنوان سے مختلف قومی و مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھتی ہیں