زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو ا ب پ پر یقین رکھنا ہے اور یہ سبق کبھی نہیں بھولنا لیکن جو یہ سبق یاد کروانے میں ماہر ہوتا ہے ہم اسکی مہارت نہیں دیکھتے بلکہ اُسے اپنا درس دیتے ہیں کیونکہ ہم مستقبل کے معماروں کے حقیقی سرپرست والدین ہیں اور یہ ٹھہرے روحانی والدین۔ جی تو میں بات کررہی ہوں عزت مآب اساتذہ کی جن کی عزت کا اس قدر عالم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ “جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا آقا اور میں اس کا غلام ہوں “مگر بدقسمتی سے ہم آج ماڈرن دنیا کے باسی ہیں ہم اسکے برعکس ہیں کیونکہ ہمیں تو اُستاد کی عزت کی اہمیت اس لئے نہیں جانتے کیوں کہ ہم استاد کو پڑھانے کا معاوضہ دے رہے ہیں اور استاد بھی مجبوراً معاوضہ لے کر اپنی عزت کی دھجیاں اُڑوا رہے ہیں ۔
معذرت کے ساتھ یہ الفاظ میرے خود کے نہیں ہمارے اساتذہ کے ہیں جو معاشرے میں اپنی اہمیت دن بدن کھو رہے ہیں کبھی ان کو ہتھکڑیاں لگا کر رسوا کیا جا رہا ہوتا ہے تو کبھی واٹر کینن پمپ سے ان پر پانی کی شیلنگ کی جاتی ہے اور جو اسکول میں عزت بخشی جاتی ہے سر آنکھوں پر سمیٹنے پر بھی نہیں سمٹتی۔ ایک جملہ گزشتہ دس سالوں سے گونج رہا ہے”مار نہیں پیار” بلاشبہ استاد شاگرد میں مار نہیں پیار شفقت اور عزت کا رشتہ ہونا چاہیے لیکن یہی جملہ کچھ طالب علموں کے لئے ایک ہتھیار سے کم نہیں اور تو اور ہمارے معاشرے کے ماڈرن والدین اس جملے کو ساکھ بنا کر اچھا خاصا اساتذہ پر اپنا رعب اور دبدبا رکھتے ہیں کہ ان کے بچے کو پیار کے لالی پاپ کے ساتھ پڑھایا جائے اوپر سے سونے پہ سہاگہ ہمارا نیا ایجوکیشنل اسٹائل جس میں اساتذہ کو بچے کو پڑھانے کی اصطلاحات کی لسٹ تھما دی گئی ہے جس کے مطابق کوئی استاد کسی بھی طالب علم کو جسمانی سزا نہیں دے سکتا نہ ہی بچے کا نام خارج کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی جرمانہ کیا جاسکتا ہے ،نہ تو کچھ سخت الفاظ کہہ سکتا ہے، یہاں تک کہ کوئی استاد اپنے شاگرد کو گھور بھی نہیں سکتا،خواہ بچہ اسکول سے غیر حاضر رہے یا پھر سکول دیر سے آئے ،جماعت کا سبق بھی نہ یاد کرے حتیٰ کہ کوئی بھی غیر اخلاقی حرکت کرے، اساتذہ سے بدتمیزی کرے، دیگر طالب علموں سے لڑائی جھگڑا بھی کرے اور اسکول کی اشیاء کی توڑ پھوڑ کرے تب بھی استاد اُسے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مار نہیں پیار کو بڑھانا اورپڑھ لکھ کے پاکستان کا مستقبل بنانا ہے۔یہ پالیسی پاکستان بھر کے پرائیویٹ اسکول کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری سکولوں پر بھی لاگو ہے۔
چونکہ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے تو یہ سب اصطلاحات سوشل میڈیا پر عیاں ہے اور آج کے طالب علم کے پاس کچھ سو کی کتاب چاہے ہو یا نہ ہو پر ہزاروں کا ٹچ موبائل ضرورہوتا ہے اوپر سے ہمارا الیکٹرونک میڈیا بھی اس قدر پیار محبت کا حامی ہے کہ بس….اب زیرِ بحث بات یہ ہے کہ اساتذہ آخر کونسا فارمولا بنائیں کے استاد کچھ کہے بھی نہ اور طالب علم محنت بھی نہ کرے اور ڈگری لے کے افسر بن جائے اورہمارے طلباء اس قدر ہونہار ہیں کہ انہیں اپنےکتابی علم کے علاوہ ہر بات کاعلم ہوتا ہے۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ اگر کسی استاد نے اُسے سبق نہ یاد کرنے پر کوئی بھی سزا دی تو قانونی کاروائی بعد میں ہوگی جبکہ سکول کے پرنسپل سے تو فوراً بنا وقت کے ضیاع کے والدین اور دیگر اساتذہ کے سامنے متعلقہ استاد کی عزت افزائی ہوجانی ہے جس پر وہ بنا کسی قصور کے معاشرےکا ایک باعزت شخص ہوتے ہوئے بھی مجرمانہ طور پر کھڑا ہوگا کیونکہ اس کی نوکری کا سوال ہے مجبوراً اُسے معافی مانگنا ہو گی جوکہ بچے کی شہ جبکہ ایک استاد کی شرمساری کا مقام ہے۔
حالانکہ استاد حقیقتاً بچے کا مستقبل چاہتا ہے اور یہی اس کا قصور ہے میں یہ بھی نہیں جھٹلا سکتی کہ کچھ اساتذہ کے روپ میں وحشی افراد موجود ہیں جو صرف و صرف معاشرے میں ایک رعب اور دب دبا چاہتے ہیں اس عہدے پر فائز ہیں پر وہ استاد نہیں کیونکہ استاد پہلے خود ایجوکیٹڈ اور انفارمیٹڈ ہوتا ہے پھر وہ شاگردوں کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ اسکے شاگرد کا معاشرے میں ایک مقام ہو اور جو صرف ڈگری کی عوض پڑھاتا ہے وہ استاد نہیں ہوتا کیونکہ اس ٹیچنگ سکلز ہی نہیں تو وہ رہنمائی کیا کر سکتا ہے نتیجہ بچوں پر تشدد کا کیس سامنے آتا ہے جس سے ڈر کر والدین اپنے بچوں کے لئے ایسے اسکول کا انتخاب کرتے ہیں جہاں مار نہیں پیار ہو اور استاد ایک ڈمی ہو جو بس لیکچر دے اور جو کچھ مرضی ہوتا رہے۔ وہ نہ کچھ کہے نہ کچھ سُنے اور نہ کچھ کرے جس سے معاشرے میں اساتذہ کے رتبے میں کمی آتی جا رہی ہے ۔ہائی سٹینڈر کے بچے اپنی خاتون کلاس ٹیچر کے دوستیاں کرنے میں لگے ہیں استاد شاگرد کا فاصلہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے بوجہ نوکری کے حصور بچوں کو کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں اور بچے بڑی دِیدا دلیری کے ساتھ استاد کو دھمکا رہے ہوتے ہیں کہ اگر آپ نے کچھ بھی کہا تو آپ کو ریڈ کارڈ ایشو ہو جائے گا مطلب یا تو تنخواہ کٹوتی ہوگی یا پھر پرنسپل سے وارننگ ملے گی۔
بڑی نازک صورتِ حال ہے کہ بچے کی اوّل پوزیشن کے بھی متلاشی ہیں اور بچے کو ہاتھ لگانے کے بھی خلاف ہیں یہ ماڈرن دور کے افراد…… تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمارے بزرگان سے پتہ چلتا ہے کہ استاد کے ہاتھ میں چھڑی شاگرد اور استاد میں میں فاصلہ ،عزت اور ڈر برقرار رکھتی ہے جب کہ ایک صحیح استاد چھڑی کا استعمال ضرورت کے مطابق کرنا جانتا ہے اور “مار نہیں پیار” کا فارمولا بھی درست ہے کہ استاد کا دستِ شفقت ہونا بھی لازم ہے بس حکومتِ پنجاب اور حکومتِ پاکستان سے التماس ہے کہ اساتذہ اور شاگرد میں ایک فرق کوواضح کرنے کے لئے بھی کچھ پالیسز بنائی جائیں جس میں اساتذہ کے احترام کو پقینی بنایا جائے خالی گاڑی کی نمبر پلیٹ اور سگنلز پر سلیوٹ سے اساتذہ کی عزت کو برقرار نہیں کیا جاسکتا اور اگر یہی حال رہا تو ہمارے معاشرے میں ڈگری ہولڈرز تو بے تحاشا ہونگے پر استاد کوئی کوئی ہو گا ۔
سعدیہ عارف میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکی ہیں، ان دنوں لاہور تعلیمی بورڈ سے منسلک ہیں۔سعدیہ شش و پنج کے مستقل عنوان سے مختلف قومی و مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھتی ہیں