صنف نازک ہی آخر کیوں؟ تحریر: عائشہ سلیم

صنف نازک کا لفظ جب بھی کسی کے ذہن میں آتا ہےتو ہمارے کیا، سب کے ذہن میں ایک ہی آواز گونجتی ہے” عورت” ہمارے معاشرے کا سب سے حساس فرد اور جس سے ہمارا آنے والا مستقبل جڑا ہوا ہےلیکن ایک بہت ہی دردناک سچائی جو کہ ہمارے معاشرے کے ساتھ جڑی ہےوہ ہے صنف نازک کی تذلیل، کہیں جسمانی تشدد تو کہیں ریپ ،کہیں عزت کے نام پر قتل ہمیشہ عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔آخر کیوں؟
جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو کچھ لوگ ہمدردی جتاتے لیکن دوسری طرف یہ چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ صنف نازک ہی کی غلطی ہےجو کہ اپنے جسم کی نمائش کرتی ہے ،اپنی ادائیں دکھاتی ہےاور مردوں کو لبھاتی ہےتو آپ کا کائنات سومرو کے بارے میں کیا خیال ہےجو کہ ایک 13سال کی معصوم بچی تھی جس کی ابھی عمر کھیل کود کی تھی،ا جتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ستمبر 2014 میں میاں فاروق کے بیٹوں سے ایک نو عمر بچی اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی، جولائی 2017 میں 16 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔چلیے ان سب کو چھوڑیں ،سات سالہ بچی زینب انصاری کے بارے میں کیا خیال ہےجو کہ ابھی تین یا چار سال کی تھی، جسمانی زیادتی کے بعد مار دیا گیایہ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں جو کہ ابھی کھیل کود کی عمر میں تھیں کیا یہ معاشرہ جواب دے سکتا ہےکہ ان بچیوں نے کیسے ان درندوں کو لبھایا ؟کون سی ادائیں دکھائیں ؟جو ان معصوموں کے ساتھ یہ سب کیا گیا۔ اس حد درجہ درندگی کی گئی کہ ان کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور دوسری طرف عزت کے نام پر قتل کرنے کی بات آئے تو چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں کے بنا پر قتل کردیا جاتا ہے۔
صنف نازک کا پاکستان میں عزت کے نام پر قتل کرنے کی مقدار تقریبا٪46 ہے۔ لڑکیوں یا عورتوں کو ہی قتل کیوں کیا جاتا ہے؟ مردوں کو کیوں نہیں؟ اگر مردوں سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کی سزا بھی اس کی بہن کو دی جاتی ہے آخر کیوں؟ جیسا کہ جولائی 2017 میں ایک سولہ سال کی بچی کو زیادتی کرنے کا حکم اس کی پنچایت نے دیا حالانکہ گناہ بھائی کے ہاتھ سے ہوا تھا ۔
ابھی جو تازہ ترین واقعہ پیش آیا ہے جس میں سسر نے اپنی بیوہ بہو اور اپنے دور کے رشتے دار کو قتل کردیا ۔یہ کس بنا پہ کے وہ عورت اس مرد کے ساتھ بری تھی۔ بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ سسر اور دیور نے اس مرد سے قرض لیا تھا، قرض نہ ادا کرنے پر ان لوگوں نے اسے گھر بلا کر مار دیا اور الزام لگادیا اپنی بہو پر، کہ یہ اس مرد کے ساتھ بری تھی۔ یہ ایک افسوسناک المیہ ہے ہمارے معاشرے کا ،بلکہ ہمارے ملک کا ہمیشہ ہر چیز کا مورد و الزام ایک ماں ایک بیٹی ایک بہن ہی کیوں ہے ؟اس مرد کو کیوں نہیں کچھ کہا جاتا جو کہ اس برائی کی وجہ ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ تم عورت ذات ہوں، تمہیں کیا پتا ہو عورت کو ہی کیوں دبا کے رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک صنف نازک ہے ۔اس کا کام گھر گرستی سنبھالنا ،بچوں کو پالنا، اپنے خاوند بھائی کی عزت و ناموس کا خیال رکھنا اوران تمام زیادتیوں کو برداشت کرنا جو اس پر ہو رہی ہیں لیکن اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکالنا اور ہاں نوکری نہیں کر سکتی کیونکہ وہ تو صنف نازک ہے ،ہائے رے قسمت !حق ہاہ صنف نازک!


عائشہ سلیم گفٹ یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کی طالبہ ہیں اور بطور صحافی معاشرتی برائیوں کے خلاف اپنے قلم کے ذریعے آواز اٹھانا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں