میرے وطن تُو صدیوں کے دیکھے اُس خواب کی تعبیر ہے
جس سے ٹوٹ گئی ظُلم وستم کی غلامی کی ہر زنجیر ہے
کہا جاتا ہے کہ دن کے خواب کبھی سچے نہیں ہوتے مگر 23مارچ 1940 کے دن جو خواب دیکھا گیا اس کی تعبیر ٹھیک سات سال بعد 14اگست 1947 کو پوری دنیا نے دیکھ لی۔ وہ خواب جو کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ برصغیرِ مسلمان کی ہر آنکھ کا ہر روز صدیوں سے دیکھے جانے والا خواب تھا جسکی تعبیر کیلئے بیش قیمت قربانیاں دی گئیں۔ لاہور میں داخل ہوتے ہی یادگار کا خوبصورت و دلکش منظر ہر روز لاکھوں افراد کو اس دن کی یاد دلاتا ہے یا پھر میں یہ کہوں کہ یادگارِ لاہور 23مارچ 1940 کو پیش کی گئی مسلمانانِ ہند کی اپنی جداگانہ حیثیت کی قرارداد کو بھولنے ہی نہیں دیتا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ جب ہمت کے ساتھ جنوں و جستجو مل جائے تو آرزو ہمیشہ پوری ہوتی ہے اور روحانی طاقتیں بھی افعال میں مدد گار ہوجاتی ہیں۔ تیئیس مارچ کا دن مسلمانانِ پاکستان کیلئے عہدِ وفا کا دن، ملک و قوم سے جزبہ حُب الوطنی کے اظہار کا دن اور خزاں کے بعد بہار کے دن ہونے کا احساس دِلاتا ہے یہ بتاتا ہے کہ ہم آج آزاد فضامیں جو سانس لے رہے ہیں یہ اُن عظیم لیڈران جدوجہد کا ثمر ہے جہنوں نے اُس کھٹن وقت میں ثابت قدمی اور دلیری کا مظاہرہ کیا۔
آج سے اُناسی برس قبل آج کے ہی دن لاہور جیسے تاریخی شہر میں منٹو پارک( جو کے اب گریٹر اقبال پارک میں تبدیل ہو چُکا ہے ) میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے قرارداد لاہور پیش کی گئی جبکہ صدارت خود قائداعظم نے کی اور یہ تاریخی الفاظ کہے۔ “اس امر کی وضاحت کرنا ہمارے ہندؤ دوست اسلام اور ہندؤازم کی حقیقی صورتِ حال اور حقیقت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں، ایک بڑا مشکل امر ہے۔ میرے خیال میں یہ دونوں کسی قطعی اعتبار سے لغوی اعتبار سے مذہب نہیں ہیں لیکن درحقیقت یہ سماجی اور معاشرتی ضوابط ہیں اور یہ محض کہ ہندؤ اور مسلمان کوئی ایک قومیت بناسکیں گے تو یہ غلط فہمی ہے۔ ہندؤ اور مسلمان دوجدا گانہ مذہبی فلسفوں، سماجی رسم و رواج اور علمی ادبی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں قومیں نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں اور نہ ہی مل کر بیٹھ کر کھا سکتے ہیں حقیقت یہ دونوں قومیں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کے علاوہ دونوں کی رزمیہ تاریخ مختلف ہے، دونوں کے ہیرو مختلف ہیں۔ حالات و واقعات مختلف ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ جو ایک قوم کا ہیرو ہے وہ دوسری قوم کا دشمن ہے اور ایک قوم کا دشمن دوسری قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ ایسی قوموں کو ایک سلطنت کر دینا بالکل غلط فیصلہ ہے مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں اس کیلئے چاہے قوم کی کوئی بھی تعریف کی جائے۔ اسکے تحت یہ ایک قوم ہے اس کے لئے ان کا اپنا ایک وطن ہونا چاہیے۔ انکا اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے۔” جس کا مقصد دو قومی نظریہ کو مدِنظر رکھ کر مسلمانانِ ہند کی پہچان دنیا کے سامنے رکھنا تھا اور جسکی حمایت مسلمانوں کے تمام بڑے رہنماؤں نے کی۔ قراردادِ لاہور کی منظوری برصغیرِ ہند کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انا کو طاقت سمجھ کر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے لیکن مسلمانان ہند کی جستجو اور یکجہتی نے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنایا۔ یہی یکجہتی کا ثمر اسلامی جمہوریہ پاکستان مِلا جہاں ہم آج اس دن کی اہمیت کے حوالے سے آزادانہ طور پر مناتے ہیں۔
بات 1940 کی ہو یا 2019 کی پاکستانیو کیلئے سب سے پہلے پاکستانیت ہے جسکا ثبوت حالیہ میں ہونے والی پاک بھارت کشیدگی میں پوری دنیا نے دیکھی کے پاکستان کس قدر مستحکم اور مضبوط ہے۔ آج بھی اس ملک کو بچانے کیلئے تمام لیڈران اپنی سیاسی جنگ چھوڑ کر صرف پاکستان کیلئے متحد ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو ہم آنکھیں نوچنا جانتے ہیں۔ وطنِ عزیز کو ہر خزاں سے محفوظ رکھنے کا عزم اُٹھائے ہوئے ہیں ہم تب کی قرارداد پاکستان بنانے کیلئے پیش ہوئی تھی۔ آئیں آج قرارداد پیش کریں کہ ہم پاکستان کو مستحکم اور مذید مظبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔ ایک ایسے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں جس کیلئے سب سے بڑھ کر پاکستانیت ہو۔ کوئی پنجابی نہیں کوئی سندھی بلوچی اور پختون نہیں سب کی ایک ہی پہچان ہو۔ ہمارے لئے صوبائی تقسیم ، مذہبی فرقہ واریت اور سیاسیات سے بڑھ کر پاکستانیت ہو۔ کیونکہ تیئس مارچ کا دن ہمیں یکجہتی کا پیغام دیتا ہے۔ یکسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ مسلمانیت کا پیغام دیتا ہے پاکستانیت کا پیغام دیتا ہے۔ اللہ پاک ہمارے وطنِ عزیز کو ہر آفت و بلا سے دور رکھے۔ آج کے دن ایک یہی دُعا تمام پاکستانیو کی طرف سے سوہنی دھرتی کے نام ہے۔
اے وطن تو سلامت رہے تاقیامت رہے۔
سعدیہ عارف میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکی ہیں، ان دنوں لاہور تعلیمی بورڈ سے منسلک ہیں۔سعدیہ شش و پنج کے مستقل عنوان سے مختلف قومی و مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھتی ہیں