حق مہر انا کا مسئلہ کیوں؟تحریر: مہرین جمیل

حق مہر لکھوانا ہے ، بیٹی بیچ رہے ہو کیا ؟ دیکھو کیسے ماں باپ ہیں بیٹی کا سودا کر ہے ہیں ۔ ارے ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا ،جدید دور آگیا ہے لوگوں میں شرم و حیا ختم ہو گئی ہے ۔ بہن ! ہم تو اللہ کے نام پر بیٹی دیتے ہیں دیکھو اگر کسی نے بیٹی نہیں رکھنی تو پیسے لکھوا کر کون سا گھر بس جانا ہے؟
یہ وہ آوازیں ہیں جو حق مہر کا نام لینے پرکانوں میں گونجنے لگتی ہیں اور چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی ہم ان پر خاموش رہتے ہیں ۔ہمارے ہاں نظام ہی الٹ ہے، حق اور سچ کی بات کرو تو گالیاں پڑتی ہیں، لوگ برا بھلا کہتے ہیں، خاموش رہو تو بز دل کہتے ہیں ، شور مچاؤ تو بد تمیز ٹھہراتے ہیں ، ڈٹ جاؤ تو باغی بن جاتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں شادی کے وقت جہیز لیا جا سکتا ہے اس پر بے شمار دلیلیں دی جاتی ہیں ، جہیز کے نام پر ایک فہرست مل جاتی ہے اور اگر نا ملے تو دبے الفاظ میں یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ آپ کی بیٹی ہے جو چاہے ،دے دیں ،اسی نے استعمال کرنا ہے پھر اگر ماں باپ اتنی استطاعت نا رکھتے ہوں اور جہیز کم ہو
جائے تو بس سمجھیں لڑکی کی زندگی جہنم بن گئی۔ سسرال کی چیزیں استعمال کرنے پر دن رات طعنے ملیں گے۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اس سے پہلے گھر کا نظام نہیں چل رہا تھا ؟ صرف ایک فرد کے آنے سے کون سے پہاڑ ٹوٹ پڑے، خیر اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے ۔
جہیز جو ایک لعنت ہے ا سے وصول کرنا فخر اور حق مہر جو لڑکی کا حق ہے اس کا مطالبہ شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ آج ہمارے ارد گرد بے شمار ایسی لڑکیاں ہین جو کہ جہیز نا ہونے کی وجہ سے اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں ،انکے ماں باپ کی تکلیف کا اندازہ شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں کر سکتا ، یہاں ہمارا ضمیر نہیں جاگے گا۔ حق مہر کی بات کی جائے تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر شرعی مثالیں دی جائیں گی اور پھر لوگ توبہ توبہ الگ کریں گے ۔ساری زندگی لڑکیاں یہی بات سنتی ہیں کہ یہ انکا گھر نہیں وہ پرائی امانت ہیں انہیں اگلے گھر جانا ہے، اگلے گھر جاؤ اور اگر قسمت ساتھ نا دے تو آپکو وہاں سے چند کاغذ کے ٹکرے اور ٹوٹا پھوٹا آدھا ناکارہ سامان دے کر واپسی کی راہ دکھا دی جاتی ہے اور ماں باپ کے گھر واپس آنے پر وہاں پر موجود افراد کے لئے وہ لڑکی بوجھ بن جاتی ہے ۔ان سب میں لڑکی کا اپنا وجود کہاں ہے ؟ اس کا اپنا گھر کون سا ہے ؟کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ۔طلاق کیوں دی غلطی کس کی تھی ؟یہ ایک الگ بحث ہے۔کسی کا گھر ٹوٹ گیا وجوہات وہ دونوں بہتر جانتے ہیں ۔ہمیں جج بن کر فیصلہ سنانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ۔ بات اللہ کے اس ناپسندیدہ عمل کی ہے جس کی شرح ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ۔طلاق کے بعد عورت جائے تو کہاں جائے اورایسے حالات کے پیش نظر اگر کچھ خاندان بیٹی کے تحفظ یا برے حالات کے لئے حق مہر کا تقاضا کریں تو زیادہ تر ایسے رد عمل کا
سامنا کرنا پڑتا ہے کہ بیٹی والے شرمندہ ہی ہو جاتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بچیوں کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر شادی کر دی جاتی ہے اور اگر وہ پڑھ لکھ جائے تو پھر نوکری کی اجازت بہت مشکل سے انتہائی کم لڑکیوں کو ملتی ہے اور اگر کوئی گنہگار نوکری کرنے لگ جائے تو ایک الگ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ نوکری والی لڑکیا ں گھر نہیں بسا سکتیں یوں نوکری والی لڑکی کے رشتے میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔کیوں کہ اس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ لڑکی خود سر ہے خود مختار ہے غلام نہیں بنے گی اپنا اچھا برا جانتی ہے سو شادی سے پہلے اس کی نوکری چھڑوا کراسکے ہاتھ پاؤں باندھ دو تاکہ جہاں رکھا جائے وہاں پڑی رہے ۔
یہاں میں آپ کو ایک واقعہ سنا تی ہوں میرے بچپن کی ایک ٹیچر کی شادی ہوگئی اور پھر روایتی انداز سے یہ شادی چلنے لگی ۔کچھ سال بیت گئے اور اسی دوران دو بچے بھی ہوگے لیکن وہ گھر نہیں بس سکا ،انجام یہ کہ طلاق ہوگئی ۔وہ خاتون دوبچے لے کر اپنے ماں باپ کے گھر آگئی اور اس کا بھائی جو گھر کا سربراہ تھا وہ کسی اور کے بچے پالنے سے معذرت خواہ تھا۔ یہاں میں آپ کو بتا تی چلوں کہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں اور شادی سے پہلے ایک گورنمنٹ سکول میں ٹیچر بھی تھیں لیکن شادی کے لیے انہیں جاب چھوڑنا پڑی اور پھر ہمارا وہ روایتی انداز کہ ہم تو بیٹی اللہ کے نام پر دیتے ہیں تو بھلا حق مہر کیسے لکھوا سکتے ہیں ؟ پھر ہم طلاق کے بعد اللہ کے نام پر ہی ہم اس عورت کوحالا ت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں تا کہ وہ دردر کی ٹھوکریں کھائے جس سے مرد کی انا کو تسکین پہنچے اور عموما مرد حضرات عورت کو سزا دینے کے لیے بچوں کا خرچ تک نہیں دیتے ،ہاں عدالت میں جانے کی آزادی ہے ۔لیکن انصاف کے حصول میں کتنی مشکلات اور خرچ اور کتنا وقت درکار ہے اس کاندازہ ہم سب کو ہے۔ میں نے اپنی ٹیچر کو روتے اور لوگوں کی منتیں کرتے دیکھا ہے ۔مجھے نہیں پتا کہ غلطی کس کی تھی طلاق کیوں ہو ئی ؟نہ مجھے اس بات سے کو ئی غرض ہے۔ مجھے آج بھی اس بات کی تکلیف ہے کہ سزا صرف عورت کو ہی کیوں ملتی ہے؟ اگر اس کے نکا ح کے وقت کچھ رقم لکھ دی جاتی تواس سے وہ ساری زندگی کے لیے امیر نہ بن جاتی بلکہ وقتی طور پہ اپنا گزر بسر کرنے یا روزگا ر کمانے کے قابل ہوجاتی اور بہت سے ہمدرد بھیڑیوں سے بچ جاتی ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں ۔
اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد حضرات سے حق مہر کی بات کی جائے تو اسے انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ا ور روایتی انداز میں جواب دیتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں حق مہر کو لڑکی یا اس کے گھر والوں کی جانب سے رشتے کو قائم رکھنے کے لئے بلیک میلنگ تصور کیا جاتا ہے کہ شاید حق مہر کی رقم زیادہ سے زیادہ اس لیئے لکھوائی جاتی ہے کہ لڑکا اسے ادا کرنے کے حوف سے طلاق نہیں دے گا جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے جب دلوں یا رشتوں میں گنجائش نا رہے تو دنیا کی قیمتی سے قیمتی شے بھی اسے برقرار رکھنے کے لئے ناکافی ہوتی ہے ۔حق مہر لکھوانے کا اصل مقصد لڑکیوں کے مستقبل کا تحفظ ہے تا کہ اگر خدانخواستہ کوئی برا وقت آئے تو معاشی طور ہر اتنی مستحکم ہو کہ ان تمام حالات میں سٹیبل ہو سکے اور ہم شادی کے وقت غلط رسموں میں فخر کے ساتھ پیسے کا ضیاع کرتے ہیں حالانکہ شادی سادگی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے ۔
جہاں تک بات ہے اسلامی تعلیمات کی تو ہمارے معاشرے میں سوائے چار شادیوں اور شرعی حق مہر کے باقی تعلیمات پر کم ہی غور کیا جاتا ہے ، فرض کریں اگر اس دور میں حق مہر کی رقم چار روپے مختص کی گئی تھی تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کے سو سال گزرنے کے بعد میں رقم اتنی ہی رہے جس کی دور حاضر میں کوئی وقعت نا ہو ۔ اور اسلام کے مطابق حق مہر کی رقم کی آخری حد مقرر ہی نہیں کی گئی۔
اس حوالے سے عالم دین کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے ۔ حق مہر کی اہمیت اور اس کا حقیقی مقصد اسلام کی روح کے حوالے سے بھی بتایا جائے تا کہ من گھڑت رسمیں جو کب سے چلی آ رہی ہیں انہیں ختم کیا جائے ۔ہمیں ان ابتدائی مسائل سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے آگے بڑھیں آگے آسمان اور بھی
ہیں دنیا ترقی کر کے کہاں کی کہاں پہنچ گئی اور ہم مرد عورت کے حقوق کی جنگ سے باہر نہیں آ رہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کو بھی انسان سمجھا جائے اور اسے انسانوں کی طرح ٹریٹ کیا جائے ،
قرآن پاک میں کئی سو سال پہلے چیزیں واضح کر دی گئیں جس میں ہمیں بحث کی ضرورت نہیں
ہم اس بات سے سو فیصد متفق ہیں کہ مرد کو اللہ نے گھر کا سربراہ مقرر کیا ہے لیکن اس کو اپنے ماتحت لوگوں کے حقوق سلب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔
مرد اپنی سرپرستی میں تحفظ کے ساتھ عورت کو ساتھ لے کر چلے اوراس کی زندگی میں اگر کوئی برا وقت آتا ہے تو وہاں اسے اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے دل بڑا کرے اور عورت کے اس کے حق سے محروم نا کرے ۔آج اگر وہ کسی کی بیٹی کے لئے آسانیاں پیدا کرے گا تو یہ آسانی کا راستہ کل اس کی اپنی بیٹی کے لئے بھی ہموار ہو جائے گا ۔ 


مہرین جمیل سپیرئیر یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان دنوں روہی نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کام کررہی ہیں۔ مختلف اخبارات اور نیوز ویب سائٹ کیلئے کالم لکھ کر سماجی مسائل کو اجاگر کرنا ان کا مشغلہ ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں