وجودِ زن ، غیرت اور ہمارا معاشرہ، تحریر: سعدیہ عارف

ویسے سوشل میڈیا میں ہر چھوٹی بڑی خبر ایسے پھیلتی ہے جیسے جنگل میں لگی آگ، جیسے اُس آگ کا پتا نیں چلتا کہاں سے لگی ؟کس نے لگائی ؟آگ اور کہاں تک پھیلی ہو گی یہ آگ ؟ اسی طرح سوشل میڈیا کی خبر بھی دُور تک اپنی مالیت رکھتی ہے۔ کچھ روز قبل بڑا عورت مارچ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا شاید وجہ یہ تھی کہ مارچ میں شامل خواتین کے زیب تن ملبوسات ہمارے معاشرے کے برعکس تھے یا پھر جو بینرز خواتین نے اُٹھا رکھے تھے وہ کسی حد تک واقعی قابلِ تنقید تھے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو قوانین فالو کئےجاتے ہیں وہ اسلام کے مطابق ہیں اور اسلام میں عورت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ خیر عورت مارچ کا اصل مقصد عورت کو اُسکے حقوق دلوانا اور معاشرے کوپیغام دینا تھا کہ عورت پر اپنی مرضی تھوپنا غلط ہے ،اُسے اپنی زندگی، اپنے طریقے سے جینے کا پوُرا حق ہے اِسے جتنے پیار اور عزت سے رکھا جائے یہ بدلے میں تُمہیں اُس سے بھی زیادہ پیار اور احترام دے گی۔
چلیں یہ تو عورت کے دن کے حوالے سے کچھ الفاظ کا تذکرہ تھا مگر آج کل ایک نہایت افسوس ناک خبر دیکھنے کو آئی ہے۔ جِسے دیکھ کر کافی دُکھ ہوا ،لاہور کی ایک شادی شدہ عورت اسماء کی جانب سے اپنے ہی شوہر کے خلاف اپیل کی درخواست درج کروائی گئی جس کے مطابق شادی کو کم و بیش چار سال کا عرصہ ہوچکا ہے ، شادی کے چند ہی ماہ بعد اس کا شوہر اپنی اصلیت دکھانے لگا اور بیوی پر تشدد کرنے لگا اور مختلف مردوں کو گھر پر بلانا اور اپنی بیوی کو غیر مردوں کے سامنے نچوانے پر زبردستی شروع کر دی۔ایک لفظ ہوتا ہے غیرت جو ہمیشہ چار عورتوں کو معاشرے میں تحفظ دلواتی ہے۔ ہر مرد کی غیرت اسکی ماں ،بہن، بیوی اور بیٹی ہوتی ہے جسے وہ عام طور کسی غیر کے سامنے نظر آنے سے بھی گریز کرتا ہے اور یہ مرد اپنی ہی بیوی اپنی غیرت کو دوسرے مردوں کے سامنے ڈانس کرواتا ہے کیا نشہ واقعی غیرت ختم کر دیتا ہے؟؟؟ کیونکہ یہ شخص بقول اسکی بیوی کے نشے کے عادی تھا اور اس نے شادی ہی اس لئے کی تھی کہ اپنی بیوی کو دوسرے مردوں کے سامنے نچوا کے پیسہ بنایا جائےاور جب بیوی انکار کرتی تو اُس پرجسمانی تشدد کرتا تھا ۔
اس ساری کہانی میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ یہ ایک لو میریج تھی اور بات میڈیا پر تب کُھل کر عیاں ہوئی جب محترمہ اسماء کے غیر مردوں کے سامنے ڈانس سے انکار پر اسے پائپ کے ساتھ باندھ کر سر کے بال کاٹ کر گنجا کیا گیا اور بعد ازاں یہ دھمکی بھی دی کہ بات اگر پھیلی تو وہ اُسے جان سے مار دے گا سمجھ نہیں آتی ،ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں؟ کس مذہب سے منسلک ہیں؟ ہم انسان ہیں یا حیوان کے ہمیں اپنے سوا کسی کا احساس ہی نہیں ہم جانتے ہی نہیں کے جسم پر چوٹ لگنے سے درد ہوتا ہے کیونکہ ہم چوٹ کسی بے بس کے جسم پر لگا رہے ہوتے ہیں اور جو بدسلوکی ہم دوسرے انسان کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ہمارے نظریے میں سو فیصد درست ہوتی ہے کیونکہ اس سے فائدہ ہماری ذات کو پہنچ رہا ہوتا ہے ۔کسی کا دل دُکھے دماغ پھٹ جائے یا جسمانی اعضاء مفلوج ہو جائیں کوغرض نہیں مجھے تو لگتا ہے یہ دنیا اب دنیا نہیں رہی یہ درندوں کی وہ نگری بن چُکی ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو نوچ کر کھانا چاہتا ہے اور پھر عموماً عورت ہمیشہ شکنجے میں آتی ہے کیونکہ یہ قدرت کی طرف سے ہی بہت نازک و نرم دل ہے ،اُونچی آواز سے ڈر جاتی ہے تو اس پر بے رحمانہ تشدد تو ایک بزدلانہ حماقت ہوئی جو اکیلے اپنا دفاع نہیں کر سکتی ،حیرانگی تو اس بات کی ہے کس طرح کا انسان ہے یہ فیصل نامی شخص ،جو اپنی منکوحہ کو ہی دیگر مردوں کے سامنے رقص پر مجبور کرتا تھا۔ کیا یہ اس کا یہ پیشہ ہے؟ اور اسکے باقی اہلِ خانہ کا کیا ردِ عمل ہے کچھ نہیں پتہ لیکن اتنا واضح ہو چکا ہے کہ یہ شخص اور عزت کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جس قدر دلیری کے ساتھ یہ شخص اپنا جرم قبول کر چُکا ہے نہ کوئی پشیمانی اور نہ ہی کوئی افسوس۔
اب مزید تو عدالت کی کاروائی کے بعد ہی تحقیقات سامنے آئیں گی۔ اختتام میں تو یہی کہوں گی کہ وجودِ زن سے ہےتصویر کائنات میں ہر رنگ، اس میں کوئی شک نہیں کے قدرت کی بنائی ہوئی سب سے خوبصورت شے عورت ہے اسکو محبت اور عزت کے سوا کچھ نہیں چاہیے یہ تمہاری افزائشِ نسل کے ساتھ معاشرے میں بھی تمہارا مقام بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر عورت کو محبت اور عزت سے محروم رکھا جائے تو بلاشبہ یہ عورت کا قتل ہی ہے ۔


سعدیہ عارف  میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکی ہیں، ان دنوں لاہور تعلیمی بورڈ سے منسلک ہیں۔سعدیہ شش و پنج کے مستقل عنوان سے مختلف قومی و مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں