آئندہ مالی سال کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.2 فیصد یا 3151 ارب روپےسےزائد تجویز کیا گیا۔
بجٹ خلاصہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اپنا پہلا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 20-2019 قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 36 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کردیا، جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3151.2 ارب روپے 7.2 فیصد تجویز کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس پر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ تعینات کیا گیا اور انہیں اسد عمر کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں تاہم وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بجٹ 20-2019 پیش کیا۔
بجٹ 20-2019 کے نمایاں خد وخال
بجٹ تخمینہ 7000 ارب روپے سے زائد
ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 5550 ارب روپے
دفاعی بجٹ 1152 ارب روپے پر برقرار
محصولات کے لیے جی ڈی پی کا تناسب 12.6 فیصد تک بڑھایا جائے گا
ترقیاتی منصوبوں کے لیے تخمینہ 925 ارب روپے
خسارے کا تخمینہ 3151.2 ارب روپے
صوبائی سرپلس کے لیے 423 ارب روپے
3 ہزار 255 ارب روپے ساتویں ‘این ایف سی ایوارڈ’ کے تحت صوبوں کے لیے
قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 2891.4 ارب روپے
قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1800 ارب روپے — جس میں سے 950 ارب روپے وفاقی خرچ شامل
ڈیم کے منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے — جس میں 15 ارب روپے بھاشا ڈیم اور 20 ارب روپے مہمند ڈیم کی اراضی کے لیے مختص
داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے 55 ارب روپے
اشیاء کے لیے جنرل سیل ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد پر برقرار
ہیولین تھاکوٹ موٹر وے کے لیے 24 ارب روپے مختص
ریسٹورانٹس اور بیکریز کے لیے اشیاء پر ٹیکس کی شرح 4.5 فیصد گا۔
انسانی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 60 ارب روپے
اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے
وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے
کراچی میں 9 منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے
بلوچستان میں ترقیاتی پیکج کے لیے 10.4 ارب روپے اور پانی کے منصوبوں کے لیے 30 ارب روپے
کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی
کم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر
خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی
وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے
زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے
پینشن میں 10 فیصد اضافہ
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ بڑھا کر 5500 روپے کرنے کی تجویز
چینی، کوکنگ آئل، گھی، مشروبات، سگریٹ اور سی این جی مہنگی کرنے کی تجویز
گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافے کی تجویز
ماہانہ 50 ہزار تنخواہ پر ٹیکس کی تجویز
یاد رہے کہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پہلا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے اس سے قبل وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اپریل 2018 میں بجٹ پیش کیے جانے کے بعد متعدد ضمنی بجٹ پیش کرچکی ہے۔
گذشتہ مالی سال 19-2018 کے لیے وفاقی حکومت نے 5246 ارب روپے کا بجٹ تخمینہ لگایا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی
قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، تحریک انصاف نئی سوچ، نیا عزم اور ایک نیا پاکستان لائی ہے، پاکستان کے لوگوں کی مرضی ہمیں یہاں لائی ہے، اب وقت ہے لوگوں کی زندگی بدلنے کا، اداروں میں میرٹ لانے کا اور کرپشن ختم کرنے کا’۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا تو اس دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا، اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور دوران بجٹ تقریر انہوں نے شور شرابا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم سب اس ملک اور آئین کے محافظ ہیں، اس حکومت کےمنتخب ہوتے وقت پائی جانے والی معاشی صورتحال کو یاد کریں اور کچھ حقائق بتانے کی اجازت دیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھی اور 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھی اور بہت سے تجارتی قرضے زیادہ سود پر لیے گئے، گذشتہ 5 سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں تھا جبکہ حکومت کا مالیاتی خسارہ 2 ہزار 260 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ ‘ہم نے فوری خطرات سے نمٹنے اور معاشی استحکام کے لیے چند اقدامات کیے، درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے یہ 49 ارب ڈالر سے کم ہوکر 45 ارب ڈالر تک آگئی، ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھنے والے قرضوں میں 12 ارب ڈالر کی ماہانہ کمی آئی، چین اور دوست ممالک سے 2 ارب ڈالر کی امداد ملی۔’
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے، اس سے معیشت کو استحکام حاصل ہوگا جبکہ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بغیر تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی، ان اقدامات کی بدولت اس سال جاری اکاؤنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر کی کمی آئے گی۔
حماد اظہر نے بتایا کہ ان سب بیرونی اقدامات کے علاوہ حکومت نے دیگر اقدامات کیے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کروائی گئی۔
مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر تک کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کم کیا جائے گا، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا، سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، نئے پاکستان میں اس کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں آئی گی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ہماری مستقل ترجیح ہے جس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں نئے شعبے شامل کیے گئے ہیں جن میں اقتصادی ترقی، زراعت اور خصوصی معاشی زونز بنانے کے ذریعے صنعتی ترقی کا حصول شامل ہے، جبکہ ریلوے کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے رقم مختص کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے، اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معاشی نقصان ہوتا ہے، تجارت پر منحصر منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ایک نیا نظام تجویز کیا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی بنانے کی وسیع تر خودمختاری دی جارہی ہے، جبکہ حکومت کو رقوم کمرشل بینکوں میں رکھنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔