سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر برقرار ہے، کرفیو کو لگے ایک ماہ مکمل ہو گیا جس سے زندگی عذاب بن گئی ہے۔ مظلوم کشمیری گھروں میں محصور ہیں، کھانے پینے کی اشیا ختم ہو گئیں، پیسے ختم ہونے پر ڈاکٹر اپنا زیورات تک بیچنے پر مجبور ہوئی۔ بڑوں شہروں میں جگہ جگہ بھارتی فوج دندنا رہی ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کرفیو، لاک ڈاؤن، جگہ جگہ قابض فوج کے باعث وادی قید خانہ بن چکی ہے۔ سرینگر کے میئر جنید اعظم مٹو بھارتی اقدامات پر پھٹ پڑے اور کہا کہ ساری سیاسی قیادت نظر بند ہے، دہلی سے سرینگر واپس جانے پر انہیں بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔
مئیر کا کہنا تھا کہ بہت بڑی حقیت ہے کہ موبائل فون سروس کام نہیں کر رہی ہے، انٹرنیٹ بند ہے، ڈائلسز کو مشکلات کا سامنا ہے، لوگوں کو کیموتھراپی کی ضرورت ہے، حاملہ خواتین مشکلات کا شکار ہیں، بالکل غیر حقیقی ہے کہ کوئی بھی کہے کہ صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ وادی یہی کچھ جاری رہا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
دوسری طرف بھارتی خبر ایجنسی دی وائر نے بھی مقبوضہ وادی کی اصل صورتحال بے نقاب کر دی، کشمیری شہری کا کہنا ہے کہ شہریوں کیساتھ جانوروں جیسا سلوک ہو رہا ہے
کشمیری شہری کا کہنا تھا کہ بھارت جب چاہے دروازہ کھول کر ہمیں چارا ڈالتا ہے جب چاہے پھر بند کردیتا ہے، کشمیریوں کو 50 سال سے ترقی کا سبز باغ دکھایا جارہا ہے۔
ایک کشمیری لڑکی کا کہنا تھا کہ ہم نے بندوق، کرفیو، ہڑتال اور پتھراؤ کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، وادی کے حالات کی وجہ سے 3 سالہ گریجویشن ساڑھے چار سالوں میں کی، نوجوان شدید دلبرداشتہ ہیں، دل چاہتا ہے کہ پڑھائی چھوڑ دیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق لوگوں کو در بدر پھرتا دیکھ کرجراتمند کشمیری خاتون پی سی او کے بزنس سے مفت کالز کراتی ہے، لوگ پچاس کلومیٹر دور سے فون کرنے آتے ہیں، بھارت کے خلاف عوامی غصہ دن بدن بڑھ رہا ہے، پیسے ختم ہونے کی وجہ سے خاتون ڈاکٹر اپنا زیور تک بیچنے پر مجبور ہوئی۔