انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے تنازعے پر بڑھتی کشیدگی کے مدنظر دنیا بھر سے ماہرین اب اس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ اگر دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
بین الاقوامی سائنسی جریدے ‘سائنس ایڈوانسز’ میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیقی مقالے میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے مابین جوہری جنگ ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں جانی اور موسمیاتی نقصان کی حد کیا ہو گی۔
مقالے میں کہا گیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دوسرے ممالک کی نسبت انڈیا اور پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر خدشات موجود ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک میں جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہیں۔
دونوں ممالک میں حال ہی میں پیش آئے کشیدگی کے تازہ واقعات، سرحدی تنازعات کے حل میں پیش رفت کا فقدان، گنجان آباد شہری علاقے اور جوہری ہتھیاروں میں تیزی سے توسیع ایٹمی جنگ کے خطرات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور صلاحیت
اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت لگ بھگ 13900 جوہری ہتھیار موجود ہیں، جس میں سے 93 فیصد امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔
باقی رہ جانے والی سات جوہری طاقتوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تعداد تقریباً 1200 ہے۔
تحقیق میں بتائے گئے اندازے کے مطابق انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس اس وقت 140 سے 150 ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں اور سنہ 2025 تک ان کی تعداد 200 سے 250 تک پہنچ جائے گی۔
دونوں ممالک کے پاس موجود وار ہیڈز کی تعداد کا اندازہ افزودہ یورینیم کی مقدار کے بجائے ان کے ڈیلیوری کے نظام کی صلاحیت کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جسے ریموٹ سینسنگ کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار داغنے کی صلاحیت رکھنے والے ایف 16 اور میراج طیارے موجود ہیں جن کی رینج 2100 کلومیٹر تک ہے جبکہ آٹھ اقسام کے بلیسٹک میزائل ہیں جن کی رینج 2750 کلومیٹر ہے۔ اس صلاحیت کے ساتھ پاکستان انڈیا کے تمام شہروں کو باآسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔
انڈیا میں 400 شہر ایسے ہیں جن کی آبادی ایک لاکھ افراد سے زیادہ ہے اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس صلاحیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان انڈیا کے گنجان آباد شہروں میں سے ایک تہائی کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
دوسری جانب انڈیا کے پاس جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میراج اور جیگوار طیارے ہیں جن کی رینج 1850 کلومیٹر ہے جبکہ انڈیا کے پاس چار اقسام کے بیلسٹک میزائل ہیں جن کی رینج 1850 کلومیٹر ہے۔
اور اس صلاحیت کے ساتھ انڈیا پورے پاکستان کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں 60 شہر ایسے ہیں جن کی آبادی ایک لاکھ نفوس سے زائد ہے اور انڈیا ان تمام شہروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔
جنگ کا منظر
تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے نہ تو انڈیا اور نہ ہی پاکستان اس وقت تک جوہری جنگ کی شروعات کریں گے جب تک کسی ایک فریق کو دوسرے کی جانب سے شدید اشتعال نہ دلایا جائے۔
انڈیا کی اس حوالے سے پالیسی یہ ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل اس وقت تک نہیں کرے گا جب تک اس پر کیمیائی یا بائیولوجیکل ہتھیاروں سے حملہ نہ کیا جائے۔
پاکستان کی پالیسی یہ ہے جوہری ہتھیاروں کا استعمال صرف اس وقت کیا جائے گا جب کوئی ملک اس حوالے سے پہل نہ کرے یا پاکستان کسی بیرونی حملے سے روایتی طور پر نمٹنے کا اہل نہ رہے۔
تحقیق کے مطابق دونوں ممالک اب تک چار روایتی جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ تقسیم ہند کے بعد سے بڑی تعداد میں جھڑپیں بھی جاری رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک عام روایتی جنگ کا جوہری جنگ میں بدل جانا قرین از قیاس نہیں ہے۔
اس صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحقیق میں دونوں ممالک میں ایک فرضی جوہری جنگ کا منظر پیش کیا گیا ہے جو سنہ 2025 میں وقوع پذیر ہو گی۔
اس فرضی منظر نامے میں یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ پاکستان انڈیا پر پہلے جوہری حملہ کرے گا تاہم یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایسا ہی ہو گا اور پہل انڈیا بھی کر سکتا ہے۔
اندازے کے مطابق سنہ 2025 تک دونوں ممالک کے پاس اپنے اپنے 250 جوہری ہتھیار ہوں گے۔
اس جنگ میں شہری علاقوں کو ‘ایئر برسٹس’ کی تیکنیک کے ذریعے نشانہ بنایا جائے گا جبکہ فوجی اور سٹریٹیجک مقامات کو دیہی یا کم آبادی والے علاقوں میں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
چین کو اس جنگ سے دور رکھنے اور پاکستان کی مدد نہ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے انڈیا کے پاس 100 کے لگ بھگ جوہری ہتھیار موجود ہوں گے کیونکہ پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے جبکہ انڈیا کی صلاحیت اس کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔
فرض کیا گیا ہے کہ انڈیا اس جنگ میں 150 جوہری ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں 25 مقامات کو نشانہ بنائے گا جبکہ پاکستان بھی اتنی ہی تعداد میں ہتھیاروں کو گنجان آباد شہروں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرے گا۔
اس سات روزہ فرضی جنگ میں دونوں ممالک کن کن اہداف کو نشانہ بنائیں گے تحقیق میں اس حوالے سے بھی منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔
ایٹمی جنگ میں کتنی ہلاکتیں ہوں گی؟
سنہ 2025 میں ہونے والی اس فرضی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور ان کی طاقت کو سامنے رکھتے یہ بتایا گیا ہے کہ دونوں ممالک میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ کروڑ سے ساڑھے بارہ کروڑ تک ہو گی۔
جنگ عظیم دوئم میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد پانچ کروڑ تھی۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے شہر گنجان آباد ہیں اور سب سے کم طاقتور جوہری ہتھیار (یعنی 15 کے ٹی) استعمال ہونے کی صورت میں بھی دونوں ممالک میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد جنگ عظیم دوئم جتنی ہو گی۔ اور یہ ہلاکتیں ایک ہفتے کے اندر اندر واقع ہوں گی۔
انڈیا میں ہلاکتوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں دو سے تین گنا زائد ہو گی کیونکہ اس فرضی جنگ میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ پاکستان زیادہ تعداد میں جوہری ہتھیار استعمال کرے گا اور دوسری وجہ یہ کہ انڈیا کی آبادی زیادہ ہے اور شہر بہت زیادہ گنجان آباد ہیں۔
جنگ کے عالمگیر موسمیاتی اثرات
اس جوہری ہتھیاروں سے لگنے والی آگ اور دھواں دنیا کے موسم کو ٹھنڈا کر دے گا جس کے باعث کاشت کاری کم ہو جائے گی اور وسیع پیمانے پر قحط پھیلے گا۔
ان حملوں کے نتیجے میں لگنے والی جوہری آگ کے باعث ایک کروڑ 76 لاکھ ٹن سے لے کر تین کروڑ 96 لاکھ ٹن تک کاربن کا اخراج ہو گا۔
یہ دھواں فضا کی اوپری حصے پر پہنچے گا اور ایک چند ہفتوں کے اندر اندر یہ دھواں پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ زمین پر سورج کی روشنی 20 سے 35 فیصد تک کم ہو جائے گی جو عالمی درجہ حرارت کو دو سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کر دے گی۔
ان موسمیاتی اثرات کی بحالی میں دس برس کا عرصہ لگے گا۔
زمینی پیداوار میں 15 سے 30 فیصد تک کمی ہو جائے گی جبکہ عالمی سطح پر اسی نوعیت کے دوسرے نقصانات بھی ہوں گے۔
بشکریہ بی بی سی اردو