انٹر نیشنل ڈس ایبل ڈے3دسمبر 1992سے پوری دنیا میں باقاعدہ طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں تمام سپیشل افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے، ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنی اور ان کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرکے انہیں معاشرے کا کارآمد شہرتی بنانا ہے۔ تاکہ وہ بھی زندگی کی حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔WHO کے مطابق دنیا کی آبادی کے پندرہ فیصد سپیشل افراد ہیں۔ سپیشل افراد کو نہ صرف اسلام خصوصی سہولتیں دینے کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ہر ریاست سپیشل افراد کوصحت،تعلیم ور روزگار سمیت تمام بنیادی سہولتیں مفت مہیا کرنے کی ذمہ دار ہے۔اس چارٹر پر 2011 میں حکومت پاکستان نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔
آج اگر ہم گوجرانوالہ کی سطح پر سپیشل افراد کے مسائل اور ان کے حل کا تقابلی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ گوجرانوالہ میں سپیشل افراد کی بحالی کے لیے کوئی جامع اور ٹھوس پالیسی نہ ہے ۔سپیشل افراد کی اکثریت خود اپنے بنیادی حقوق سے ہی ناآشنا ہے۔آج ہم گوجرانوالہ کے سپیشل افراد کے چند بنیادی حقوق پر بات کریں گے۔
گوجرانوالہ میں مذہنی پسماندگی ،قوت گویائی و سماعت اور بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم کے لیے کے لیے چند حکومتی سپیشل ایجوکیشن کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن ان اداروں میں سیکنڈری تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہے۔ابتدائی تعلیم کے بعد سپیشل افراد کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ان کی کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے مقاصد بھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔بدقسمتی سے جسمانی معذور بچوں کے لیے یہاں پر کوئی بھی سپیشل ادارہ نہ ہے۔جہاں پر وہ باآسانی تعلیمی زیور سے آراستہ ہوسکیں۔
جسمانی معذور بچوں کے لیے تعلیمی ادارہ قائم نہ کرنے کی غیر معقول وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جسمانی معذور بچوں کو نارمل سکولز میں داخل کروا کر ان میں خود اعتمادی کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے گوجرانوالہ کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کا بغورمشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی سرکاری سکول و کالج جسمانی معذور افراد کے لیے قابل رسائی نہ ہے۔تعلیمی اداروں کے کلاس روم و واش روم اور داخلی دروازے ہی جسمانی معذور افراد کی گزر گاہ کے لیے قابل رساہ نہ ہیں۔
اساتذہ کی اس حوالے سے کوئی آگاہی تربیت نہ ہے۔جسمانی معذور افراد کی ویل چئیر کے لیے کوئی ریمپ نہیں ہے۔اس غیر فطری ماحول میں سپیشل طالب علم توجہ سے کیسے تعلیم حاصل کرسکے گا۔اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہوگی۔؟کہ بورڈ کے امتحانات میں جسمانی معذور افراد کے امتحانی سنٹر کے لیے بالائی منزل کا انتخاب کیا جاتا ہے۔سپیشل طالب علموں اور ان کے والدین کی مستقل تعلیمی رہنمائی و حوصلہ افزائی کے لیے کوئی ادارہ نہ ہے۔سپیشل طالب علموں کے قابل ذکر بامقصد پالیسی نہ ہے۔
حال ہی میںعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے سپیشل طالب علموں کے لیے فری داخلہ کی پالیسی کی بندش کرکے سپیشل پرسنز کے لیے حصول تعلیم کے باب بند کردئیے ہیں۔
ان کٹھن اور ظالمانہ حالات کے باوجود گوجرانوالہ کے سپیشل طالب علم اپنے شوق و لگن کے بل بوتے پر نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔اگر حکومت سپیشل طالب علموں کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کرے تو یہ بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
گوجرانوالہ جیسے صنعتی شہر میں معذور افراد کے لیے ایک بھی سپیشل ٹیکنیکل ادارہ نہ ہے۔ جہاں سپیشل افراد کو ان کی معذوری کے لحاظ سے ہنر مند بناکرروزگار کے قابل بنایا جاسکے۔گوجرانوالہ میں” ٹیوٹا “،”صنعت زار” او”ر لیدر انسٹیٹیوٹ” جیسے ٹیکنیکل ادارے نارمل نوجوانوں کو ہنر مند بنارہے ہیں۔لیکن سپیشل افراد کے لیے یہ ادارے قابل رسائی نہ ہیں۔ان کے داخلی راستوں کے لئے سیڑھیوں کی تعمیر ، ناقابل رسائی واش رومز ،کلاس رومز اور دیگر سپیشل سہولتوں کی عدم دستیابی ان کے حصول تعلیم میں بہت بڑی رکاوٹ ہی ۔اور ان اداروں میں مختلف اقسام کی معذوری رکھنے والے تمام افراد تعلیم سے آراستہ نہیں ہوسکتے۔سپیشل افراد کی تعلیم و تربیت اور روزگار کے مسائل کے حل کے لیے گوجرانوالہ میں ایک سپیشل تعلیمی ادارے و ہوسٹل کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں تعلیم حاصل کرنے والے سپیشل طالب علم کو وظیفے کی بجائے رہائش و دیگر بنیادی سہولیات دی جائیں ۔تاکہ وہ ذرائع آمدورفت و معاشی تنگدستی کی فکر وں سے آزادہوکر پوری توجہ سے علم حاصل کرسکے۔جس کا ہر کونہ ،ہر راستہ اورہر کمرہ سپیشل افراد کے لیے قابل رسائی ہو۔جہاں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کورسزکروائیں جائیں۔ ٹیکنیکل تعلیم کے لیے چیمبر آف کامرس سے راہنمائی لی جائے۔اور ان کی ضروریات کے مطابق سپیشل فراد کو ٹیکنیکل تعلیم دی جائے۔تاکہ فوری جاب کا انتظام ہو سکے۔اور سپیشل افراد باعزت روزگار کمانے کے قابل بن جائیں۔۔
صحت کے معاملے میں بھی سپیشل افراد بد حالی کا شکار ہیں۔بہت سے سپیشل افراد معمولی سی معذوری کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے سیریس معذوری میں مبتلاہو جاتے ہیں۔غربت و مذہبی جہالت کی وجہ سے سپیشل پرسنز کو “اللہ لوک” اور” سائیں” کا خطاب دے کر زندگی بھر کے لیے اپاہج بنادیا جاتا ہے۔معذور بچوں کی معذوری کو ابتدائی مرحلہ پرکنٹرول کرنے اور ان میں بہتری لانے کے لیے گوجرانوالہ میں کوئی بھی سرکاری و غیر سرکاری ادارہ نہ ہے۔گی۔اکثر” سی پی “بچے تھوڑی سی توجہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ساری عمر کے لیے محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بچپن میں ہی ان کا مناسب علاج کیا جائے تووہ باقی عمر کی محتاجی سے بچ سکتے ہیں۔والدین کو اپنے معذور بچوں کی بحالی کی معلومات و علاج معالجہ کے لیے لاہور جانا پڑتا ہے۔ مالی مسائل کی وجہ سے اکثر والدین معذور بچوں کا علاج مکمل نہ کرواسکتے ہیں۔جو معذوری میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔سپیشل پرسنز کی صحت کے مسائل کے حل کے لیے ڈسٹرکٹ ہاسپٹل گوجرانوالہ کے علاوہ ایک ادارہ برائے بحالی معذوراں ہونا چاہیے۔جس میں میںتمام اقسام کی معذوری کے سپیشلسٹ کنسلٹنٹ موجود ہوں۔ جہاں فری فزیوتھراپی، ایکسرسائز مشینز، اسپیچ تھراپی اور دیگربحالی صحت برائے معذوراںکا مکمل انتظام ہونا چاہیے۔
روڈ ایکسیڈنٹ یا کسی اور حادثے کے سبب جسمانی اعضاءکے ضائع ہونے کی وجہ سے بھی معذوری کی شرح میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔گوجرانوالہ جیسے خوشحال صنعتی و زرعی شہر میں جسما نی معذور افراد کے مصنوعی اعضاءکی فراہمی کا ضلعی سطح پر کوئی انتظام نہ ہے۔پرائیویٹ ادارے مصنوعی اعضاءکی فراہمی نہایت مہنگے داموں کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں جسمانی معذور افراد ور ٹریفک حادثات میں اپنے جسمانی اعضاءکو کھونے والے افراد پاہچ والی دردناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سپیشل پرسنز کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے ذرائع آمدورفت ہیں۔معذور افراد کی آمدورفت میں مدد گار چیزیں مثلا ویل چیئر،بیساکھی، سفید چھڑی،ٹرائی موٹر سائیکل ،مصنوعی اعضائ،قوت سماعت کے آلہ و دیگر مددگار اشیاءکی دستیابی مفت و فوری ہونی چاہیے۔بدقسمتی سے گوجرانوالہ بیت المال کافی عرصہ سے بند رہا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر ان اشیاءکی دستیابی کا کوئی انتظام نہ ہے۔بیت المال کی بندش کی کمی کو کافی حد تک مخیر حضرات نے پورا کیا ہوا ہے۔۔لیکن سرکاری سطح پراس کا انتظام ہونا بہت ضروری ہے۔ان اشیاءکی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے راستوں کو بھی قابل رسائی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔گوجرانوالہ کی اکثر سرکاری و غیر سرکاری عوامی عمارتوں میں ریمپس نہیں بنے ہوئے ہیں۔ان میں قابل رسائی واش رومز نہ ہیں۔قابل رسائی ریمپس اور واش رومز نہ ہونے کے سبب سپیشل افراد کا گھر سے باہر قدم نکالنا بہت اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔ان بنیادی ضروریات کی غیر موجودگی سے سپیشل افراد غیر فعال ہوجاتے ہیں۔ وہ باہر جاکر اپنی عزت نفس کی تذلیل کروانے کی بجائے اپنے گھر کے اندر سسک سسک کر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت میں بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی سپیشل پرسنزاپنے روزمرہ کے معاملات احسن طریقہ سے نہیں نبھا سکتے۔جس پر معاشرہ انہیں ناکارہ و کمزور کہہ کر اپنی معاشرتی ناانصافی کی پردہ پوشی کرتاہے۔سپیشل افراد کو بیچارگی و لاچارگی کے وقتی و لفظی احساسات دکھا کر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیتا ہے۔انسانی غیر ذمہ دار رویوں میں مثبت تبدیلی کے بغیر سپیشل افراد کی بحالی کا ہر مقصد رائیگاں ہوگا۔
سوشل ویلفئیر و بیت المال گوجرانوالہ آفس سے ایک ضرورت مند سپیشل فرد صرف پانچ ہزار روپے سالانہ امداد لے سکتا ہے۔آج کل کے مہنگے دور میں پانچ ہزار روپے سالانہ سپیشل پرسنز کے لیے ایک مذاق سے کم نہ ہے۔اس کے علاوہ مشکل حالات میںمستحق و ضرورت مند سپیشل پرسنز معاشرے سے بھیک مانگ کر ہی گزارہ کرسکتا ہے۔
ہر سال مذہبی،قومی اور دیگر تہوار وں کے موقعہ کی مناسبت سے پر ضلعی انتظامیہ کوئی نہ کوئی پروگرام ترتیب دیتی ہے۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ انٹر نیشنل ڈس ایبل ڈے پر ضلعی انتظامیہ ہمیشہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ضلعی انتظامیہ کو اس دن کے موقع ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر کے باوقار طریقہ سے کامیاب زندگی گزارنے والے سپیشل پرسنز کی حوصلہ افزائی کرکے ان کی عزت افزائی کرنی چاہیے۔تاکہ دیگر سپیشل پرسنز کی بھی ہمت افزائی ہوسکے۔
ضلعی انتظامیہ اور سوسائٹی کے سوتیلے پن رویوں کی وجہ سے سپیشل پرسنز اخلاقی و معاشی طور پر دن بدن مشکلات کا شکار ہورہے ہیں۔سپیشل پرسنز کے مسائل اور ان کے حل کے تدار ک کے لیے تعلیم یافتہ سپیشل پرسنز کی زیر نگرانی کمیٹی تشکیل دے کر سفارشات مرتب کروانی چاہیے۔اور ان کی روشنی میں جامع و ٹھوس پالیسیاں بنانی چاہیے۔
معاشرے میں اپنی ہمت و حوصلہ کی بنا پر کامیاب ہونے والے سپیشل پرسنز کو رول ماڈل بنا کرآگاہی پروگرامز منعقد کرنے چاہیے۔سپیشل پرسنز کوصدقہ ا ور زکوٰة کی امداد دینے کی بجائے انہیں مناسب روزگار و ملازمت کے مواقع فراہم کرکے باعزت زندگی گزارنے کا شعور دینا چاہیے۔حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اداروں کو بھی سپیشل پرسنز کی ملازمت کے مواقع دینے کی طرف راغبت دلانی چاہیے۔معاشرے کی حقیقی ترقی و خوشحالی کے لیےر سپیشل افراد کے لیے دیگر افراد کو اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی۔یاد رکھیں ایک معذور فرد کے ساتھ ان کے خاندان کے دیگر افراد کی زندگیاں بھی متاثر ہو تی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد زبیر شیخ خود بھی ایک سپیشل پرسن ہیں اور معذور افراد کے حقوق کیلئے اپنی زندگی وقف کرچکے ہیں۔ ان کی خدمات کو سماجی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کا رابطہ نمبر 03225565098 ہے۔
Load/Hide Comments