سنگین غداری کیس فیصلہ: مشرف کو فرار کروانے والوں کیخلاف بھی کارروائی کا حکم

اسلام آباد: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے مشرف کو فرار کرانیوالوں کیخلاف بھی کارروائی کا حکم دے دیا۔
‏خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مشرف کو بری کیا اور اختلافی نوٹ میں کہا استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا موقع دیا گیا، ملزم پر تمام الزامات ثابت ہوتے ہیں، دستاویزات میں واضح ہے ملزم نے جرم کیا، پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب پائے گئے، تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ہائی ٹریزن ایکٹ 1973 کے تحت مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزا دی جاتی ہے۔

فیصلے میں سیکیورٹی اداروں کو پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم دیا گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا مشرف فوت ہوگئے تو لاش ڈی چوک لائی جائے۔ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے مثالی سزا سے متعلق پیرا گراف سے اختلاف کیا اور کہا مثالی سزا کی قانون میں گنجائش نہیں ہے، یہ غیر آئینی ہوگی۔

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، پرویز مشرف کے کریمنل اقدام کی تفتیش کی جائے، آئین عوام اور ریاست کے درمیان معاہدہ ہے، استغاثہ کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے، غداری کیس 2013 میں شروع ہو کر 6 سال بعد ختم ہوا، مشرف کو حق سے زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا، کیس کا ریکارڈ رجسٹرار کی تحویل میں رہے گا۔

فیصلہ مشکوک، اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگوں نے مجھے ٹارگٹ کیا: پرویز مشرف

فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا گیا، بلیک لا ڈکشنری کے تحت غیر آئینی لفظ کی تشریح کی گئی، تفصیلی فیصلے میں آکسفورڈ ڈکشنری کا بھی ذکر کیا گیا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کا جرم کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جرم کا ارتکاب سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 عمرانی معاہدے کو چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، آئین آرمی چیف کو کسی غیر آئینی اقدام کا اختیار نہیں دیتا، ایک لمحے کی بھی معطلی آئین کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مترادف ہے، ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ممبران افواج پاکستان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی قسم کھاتے ہیں، حلف کے تحت ممبران افواج پاکستان آئینی بالادستی، ملک سے وفاداری کے پابند ہیں، افواج پاکستان کے ہر ممبر نے ملکی خدمت کی قسم کھائی ہوتی ہے، افواج کی اعلیٰ قیادت کے ہر ممبر نے آئین کا تحفظ نہ کر کے حلف کی خلاف ورزی کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں