ایران نے عراق میں واقع دو امریکی فوجی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں الاسد ایئر بیس اور اربیل فوجی اڈے شامل ہیں۔
عراق میں موجود الاسد فوجی اڈہ اتنا بڑا ہے کہ ملک میں امریکی فوج کے آنے کے بعد اس میں سینما، سوئمنگ پول، فاسٹ فوڈ ریستوران اور اڈے کے اندر ہی بسوں کی آمدورفت کے لیے ایک نہیں بلکہ دو راستے مختص تھے۔
یہ سنہ 1980 کی دہائی میں عراقی فوج نے تعمیر کیا تھا اور یہ بغداد سے مغرب کی جانب 100 میل دور صحرا میں واقع ہے۔
سنہ 2003 میں امریکی فوج کی آمد کے بعد یہ امریکہ کے فوجی دستوں کے بڑے اڈوں میں سے ایک بن گیا اور اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔
نامہ نگار اولیور پول نے بی بی سی کو 2006 میں بتایا تھا کہ ’یہ اڈہ صحرا کے ٹھیک بیچ میں موجود ہے اور اس کے اطراف میں ریت، پتھر اور جھاڑیاں ہیں۔‘
’جیسے ہی آپ امریکی علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو بہتر سڑکیں نظر آتی ہیں۔۔۔ انھوں نے کئی طریقوں سے ایک جدید، چھوٹے امریکی گاؤں جیسا منظر بنانے کی کوشش کی ہے۔‘
یہ سہولیات اتنی متاثرکن تھیں کہ بعض امریکی فوجی دستے اسے ’کیمپ کپ کیک‘ کہتے تھے۔‘
سنہ 2009 اور 2010 میں امریکی انخلا کے بعد اسے دوبارہ عراقی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ تاہم انبار صوبے میں نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس) کے مضبوط ہونے کے بعد اس فوجی اڈے پر حملے کی کوشش کی گئی تھی۔
سنہ 2014 میں جب اسے نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے گھیر لیا تھا تب بی بی سی کے کوئنٹن سومرویل نے وہاں ایک عراقی فوجی طیارے کی مدد سے رسائی حاصل کی تھی۔
انھوں نے اطلاعات دی تھیں کہ ’امریکی قبضے کے باقیات ہر طرف موجود ہیں، جیسے استعمال شدہ توپوں کے گولے، رہائش کے غبار آلوده کمرے اور فرش پر بکھرا ہوا راشن جو بچ گیا تھا۔‘
اسی سال جب امریکہ آئی ایس سے لڑنے کے لیے واپس آیا تو اس فوجی اڈے کو دوبارہ محفوظ کر لیا گیا اور اسے پھر سے تعمیر کیا گیا۔
تاہم اس مرتبہ فوجی دستے کم تھے۔ ایک پائلٹ نے 2017 میں بتایا تھا کہ ’یہاں اب پہلے کے مقابلے میں کافی کم سہولیات ملتی ہیں۔‘
26 دسمبر 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہوائی اڈے کا دورہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’الاسد میں تعینات مرد و خواتین نے عراق اور شام میں آئی ایس کی شکست کے لیے فوج میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔‘
بعد میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں دورے کے دوران اپنی اہلیہ کی حفاظت کی فکر تھی۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’آپ کو دیکھنا چاہیے تھا کہ ہم وہاں کن حالات سے گزر رہے ہیں۔‘
نومبر 2019 میں امریکی نائب صدر مائیک پینس نے تھینکس گیونگ کے تہوار کے موقع پر اڈے کا دورہ کیا تھا۔
خیال ہے کہ الاسد کے اڈے پر 1500 امریکی اور اتحادی فوجی موجود ہیں۔ جبکہ عراق بھر میں 5000 امریکی فوجی تعینات ہیں۔
اتوار کو عراقی پارلیمان میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے مطالبے کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔ تاہم اس پر عمل درآمد لازمی نہیں۔
اس کے ردعمل میں صدر ٹرمپ نے الاسد ہوائی اڈے پر آنے والی لاگت کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر عراق نے امریکی افواج کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تو اسے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں ہمارا بہت مہنگا فضائی اڈہ ہے جس کی تعمیر پر اربوں ڈالر لگے ہیں۔ ہم اس وقت نہیں نکلیں گے جب تک وہ اس کی قیمت ادا نہیں کر دیتے۔‘
نشانہ بننے والا دوسرا فوجی اڈہ
حملے کا نشانہ بننے والا دوسرا اڈہ اربیل میں واقع ہے۔ یہ شہر عراق کے نسبتاً مستحکم کردستان کے علاقے کا دارالحکومت ہے۔
ستمبر میں امریکی فوج نے کہا تھا کہ یہاں ’3600 سے زیادہ فوجی اور سویلین اہلکار موجود ہیں جن کا تعلق 13 مختلف ملکوں سے ہیں۔‘
اس اڈے کو مقامی فوجی اہلکاروں کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ امریکی سنٹرل کمانڈ نے کہا تھا کہ اربیل سے خطے کی پہلی خاتون فوجی انسٹرکٹر فارغ التحصیل ہو چکی ہیں۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ امریکی فوج عراق میں کب تک رہے گی۔
رواں ہفتے امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے عراق سے فوج کے انخلا کی خبروں کی تردید کی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو