تہران: (ویب ڈیسک) چند روز قبل ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک یوکرائنی طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا، طیارے میں سینکڑوں شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ شروع میں کہا گیا تھا کہ یہ اتفاقی حادثہ تھا تاہم امریکا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک کی طرف سے حقائق سامنے لائے گئےجس کے بعد ایرانی حکومت نے اعتراف کیا کہ یہ طیارہ غلطی سے میزائل لگنے کی وجہ سے گرا۔ اب تہران حکومت ہلاک ہونے والوں کو زر تلافی دینے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ جبکہ ایران نے مظاہرین پر فائرنگ کی ویڈیوز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طیارہ حادثے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ نہیں کی۔
ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق مرکزی انشورنس کمپنی کے سربراہ غلام رضا سلیمانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کا جہاز انسانی غلطی کی وجہ سے ایران میں تباہ ہوا جس کی وجہ سے حکومت متاثرین کو ادائیگی کے سلسلے میں اچھا تعاون کرے گی۔
انشورنس کمپنی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جہاز کو غلطی سے فائر کا نشانہ بنایا گیا، ایران اور یوکرین اس نقصان پر بات چیت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کی مرکزی انشورنس کی کوئی ذمہ داری نہیں لیکن حکومت کو اس بات چیت کے سلسلے میں اپنے ماہرین کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
غلام رضا سلیمانی کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی کمپنیاں بیرون ملک میں اپنے مسافروں کے تحفظ کے لیے انہیں انشورنس جاری کر چکی تھیں لیکن جہاز ایران میں تباہ ہوا، ایرانی جہازوں کو ایران انشورنس فراہم کرتا ہے لیکن اس جہاز کا تعلق یوکرین سے تھا تو اسے یوکرین کی انشورنس حاصل تھی۔
کمپنی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جہاز کے انشورنس کے حوالے سے تفصیلات کا علم نہیں مگر جہاز، مسافر اور دیگر مسائل بھی شامل کیے جانے چاہئیں۔ جیسا کہ کچھ مسافروں کا تعلق مختلف ممالک اور مختلف انشورنس پالیسیز سے تھا تو امداد کی رقم پر بھی بات چیت کی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ 3 جنوری کو امریکا نے بغداد میں میزائل حملہ کرکے ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کردیا تھاجس کے بعد ایران کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
8 جنوری کی علی الصبح ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکی فوج کے دو ہوائی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا جس میں 80 ہلاکتوں کا بھی دعویٰ کیا گیا تاہم امریکا نے اس حملے میں کسی بھی امریکی فوجی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تردید کی ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران امریکا کشیدگی کے دوران 8 جنوری کو یوکرین کا مسافر طیارہ ایران میں گر کر تباہ ہوا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہوئے۔ طیارہ تہران سے یوکرین کے دارالحکومت کفا جا رہا تھا جس میں 82 ایرانی اور 63 کینیڈین شہری بھی سوار تھے۔
دوسری طرف خبریں آ رہی تھیں کہ یوکرائنی طیارے گرانے کی غلطی تسلیم کرنے کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں مظاہرین نے حادثے کے ذمے داران کے ساتھ ساتھ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے بھی استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس دوران خبریں آئی تھیں کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے بعد متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے تاہم ایران کی پولیس نے ان خبروں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی پر بھی فائرنگ نہیں کی۔
تہران پولیس کے سربراہ حسین رحیمی نے سرکار نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ مظاہرے میں پولیس نے کسی پر بھی فائرنگ نہیں بلکہ اس کے بجائے پولیس افسران کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی خبریں ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب ایک دن قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے عوام کے دوبارہ قتل عام کی غلطی نہ کریں ۔