ننھے پھولوں کو کچلنا بند کرو، تحریر: ثناء کریم

آپ سمجھ تو گئے ہونگے کہ میں کس حوالے سے بات کرنے والی ہوں جی ہاں میں ان معصوم فرشتوں کی بات کررہی ہوں جن بچوں نے ابھی تو یہ دنیا بھی ٹھیک سے نہیں دیکھی کہ یہاں موجود انسان کے روپ میں موجود درندوں کی حوس کا نشانہ بن جاتے ہیں یہ معصوم فرشتے ہر اچھی بری بات سے لاعلم کہ انکا کیا قصور ہےکس گناہ کی انکو سزا مل رہی ہے ان بھڑیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں آخر کیوںکوئی ہے جواسکا جواب دے سکے حوا کی بیٹی کیوں محفوظ نہیں اور بات یہں ختم نہیں ہوتی معصوم بچے تک محفوظ نہیں کبھی کسی بچی کو تو کبھی کسی ننھے بچے کو روند دیا جاتا ہے کچل دیا جاتا ہے درندگی کی انتہاء تو یہ ہے کی صرف زیادتی ہی نہیں کی جاتی بلکہ تشدد بھی کرتے ہیں اور بے دردی کے ساتھ انکو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا یے ارے کوئی تو ایسا ہو جسے یہ پھول اپنا محافظ سمجھیں استاد نے بدفعلی کی زیادتی کی قتل کردیا پڑوسی نے بدفعلی کی زیادتی کی قتل کردیا ماموں نے زیادتی کا نشانہ بنایا بچہ مسجد نماز کے لئے گیا امام نے بد فعلی کے بعد قتل کرڈالا کزن نے زیادتی کی جنگل میں زندہ جلا ڈالا بچی دوکان پر چیز لینے گئی واپس نہ آئی تو معلوم ہوا کہ زیادتی کے بعدما ردی گئی چچا نے زیادتی کردی مدرسے میں زیادتی کے بعد ماردیا گیا رشتہ دار نے خاندانی دشمنی میں زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا حتی ک ہ کوئی رشتہ ایسا نہ رہاجس پر مکمل اعتماد کیا جاسکے آئے روز اس طرح کے واقعات رشتوں کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں آخر ملک میں پھیلتی ہوئیدرندگی اور حیوانیت کا کوئی جواب دہ ہے کیا حکومت اس سنجیدہ مسئلے کی روک تھام کے لئے کچھ کرسکتی ہےسوال تو واقعی ابھی باقی ہے زینب کا واقعہ فرشتہ کا واقعہ اور ابھی حالیہ عوز نور کا واقعہ تازہ ہےزینب ایکٹ ترمیمی بل زینب کی موت کے تقریبا دو سال بعد منظور کرلیا گیا اس بل کے منظور ہونے کے با وجود اس طرح کیسز تو مسلسل سامنے آریے ہیں عوز نور حالیہ مثال ہے کیا یہ بل کافی ہے ان درندوں کو روکنے کے لئے سوال تو یہی یے وزیر اعلی کے پی کے محمود خان عوز نور کے گھر گئے بچی کے والدین دے تعزیت کی اور روایتی گھر کے باہر میڈیا کے سامنے کہا کہ میں ان والدین کا دردسمجھ سکتا ہوں اور اب اس کے لئے باقاعدہ قانون بنایا جائے گا سوال صرف یہ ہے کہ اب بھی قانون بنایا جا ئےگا کیا صرف یہ کہ دینا کہ میری یہ ان کی نہیں میری بچی ہیں تو جناب حقیقت یہی ہے کہ یہ آپ کی بچی نہیں ہے اور وہ تمام بچے بھی کسی وزیر کسی گورنر یا اعلی افسران کے بچے نہیں کہ فی الفور ایکشن لیاجاتا وہ عام لوگ ہیں کیڑےمکوڑے جن کہ زخموں پر مرحم صرف آپ کی زبان خرچی ہے جب ہی تو زینب کی موت کے بعد دو سال کاعرصہ لگ گیا ایک بل لانے میں جب یہ واقعہ ہواتھا تن زینب کے والد نےبا رہاکہا تھا کہاتھا کہ اس طرح کے درندوں کوعبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آج جس طرح سے میری بچی ایک درندے کی حیوانیت کی بھینٹ چڑھی ہےکوئی اور بچہ اس کا نشانہ نا بنے اب بس بہت ہو گیا آخر کب تک معصوم پھول کچلے جائنگے ہم مطالبہ کرتے ہیں حکومت وقت اور اعلی عدالت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ ایسے سفاک درندہ صفت افراد کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے اور چوک پر لٹکایا جائے اور ایسی سزا تجویز کی جائے کہ سننے والوں کی روح کانپ جائے تاکہ کوئی اقدام کو کرنے کا سوچنا بھی گناہ سمجھے اور لرز اٹھے اگر آپ بھی میری بات سے اتفاق کرتے ہیں تو برائے مہربانی ہاں یا نا میں جواب ضرور دیجئے
___________________________________
ثناء کریم نجی چینل سے بطور نیوز اینکر وابستہ ہیں اور اس سے قبل مختلف نیوز چینلز سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ خبروں پر گہری نظر رکھتی ہیں سماجی مسائل پر قلم کے ذریعے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں