اس کہانی میں سبق کا کوئی پہلو تھا اور نہ ہی کوئی چونکا دینے والی بات بس ایک دکھی شام اور سفر تھا اور سردیوں کی چوٹوں کی طرح دیر تک محسوس ہونے وا لے درد کی شکل تھی اور ہم چاہتے ہوئے بھی اس کہانی سے کچھ حاصل نہ کر سکے۔ شاہد نے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کی دھند صاف کی اور پھر سرگوشی میں بولا یہ آج سے تیس برس پُرانی بات ہے اُن دنوں میراعلی اڑھائی برس کا تھا موسمِ سرما کی ٹھنڈی رات کو جب میں تھکا ہارا گھر پہنچا تو میری بیوی علی کو کندھے سے لگائے میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی علی ماں کی گود سے اُترا اور بھاگتا ہوا میری ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ میں نے بیوی سے ماجرا پوچھا وہ بولی یہ دو گھنٹے سے آپ کا انتظار کر رہا ہے میں نے اسے لاکھ بھلاوے دیئے لیکن اس کی ایک ہی زد ہے۔ میں تو ابو سے ملوں گا۔ میں نے علی کو اُٹھایاپیار کیا اور اندر کمرے میں لے آیا پلنگ پر لٹایا اور اوپر کمبل دے کر پوچھا جی میری جان کیا بات ہے؟ علی نے مجھے گردن سے پکڑ کر نیچے جھکایا اور میرے ماتھے پر بوسا دے کر بولا ابو جان آپ میری بات مانے گے میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کیوں نہیں بیٹاآپ کہو تو سہی،
علی نے گھبرائے انداز میں اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف مُڑ کر دیکھا ابو مجھے ہاتھی خرید دیں اصلی ہاتھی۔ مجھے اس کی خواہش پر بڑا پیار آیا میں نے سینے سے لگایا اور پوچھا ابو کی جان یہ تو بتاؤ ہاتھی ملتے کہاں ہیں؟ علی نے جوش سے ہاتھ لہرایا اور بولا بازار سے میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار سے کہا بیٹے اس وقت تو رات ہے اور ساری دکانیں بند ہوچکی ہیں کل خرید لیں گے۔ علی نے یہ سنتے ہی میرا ہاتھ جھٹکا اور غصے سے چِلا کر بولا اس وقت بھی مل سکتا ہے آپ تلاش تو کریں۔ میں نے چند منٹ سوچا اور اس کے گالوں پر بوسا دیا اور کہا ٹھیک ہے چلو تیار ہو جاؤ ابھی ہاتھی خرید لاتے ہیں۔ میں یہ فقرا سن کر اپنی ماں کی طرف دیکھ کر چِلایا میں نے کہا تھا نہ کہ ابو میرے ساتھ ضرور جائیں گے۔ شاہد نے چشمہ اُتار کر گود میں رکھا اور بولا دسمبر کی وہ رات بری ہی سرد تھی جب میں اور میرا بیٹا رات کو دو بجے ہاتھی خریدنے کے لئے گھر سے نکلے شہر میں سناٹا اور ٹھنڈی ہوا کے سوا کچھ نہ تھا۔ہم کانوں پر مفرل لپیٹے ہاتھ بغلوں میں دیے بازار میں آہستہ آہستہ چل رہے تھے بازار کے آخر میں ایک دُکان تھی جس میں سردی کے مارے تین شخص سرد ہوت تندور کے گرد بیٹھے صبح کا انتظار کر رہے تھے۔
میں نے علی سے کہا ذرا ان سے پوچھو تو سہی ہاتھی کہاں سے ملے گا؟ علی دوڑتا ہوا تھڑے پر چڑھ گیاعلی نے سلام کیا اور آنے کی وجہ بیان کر دی۔ تینوں نے قہقہ لگایا اور بچے کو پیار کرکے کر بولے بیٹا ہاتھی کھلونوں کی دکان سے ملتا ہے۔ علی نے کہا میں نکلی نہیں اصلی ہاتھی کی بات کر رہا ہوں۔ آگ تاپتے لوگوں نے پھر قہقہ لگایا اور اسے قریب بلا کر بولے ہاتھی تو چڑیا گھر میں ہوتا ہے اسے صرف دیکھا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ علی کو ان کی بات پسند نہ آئی نیچے اُترا اور میری اُنگلی پکڑ کر بولا ابو ان لوگوں کو کچھ نہیں پتہ چلیں کسی دوسری دُکان سے پوچھتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور اسے ساتھ لے کر چل پڑا شہر میں کوئی دُکان نہیں کُھلی تھی،گلیوں میں کوئی نہیں تھا۔
بس ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے چلتے جا رہے تھے اور آگے چائے کے کھوکھے پر گئے ہاتھی کا پتہ پوچھا جواب میں چائے والے نے کہکہا لگا کر ہمیں آگے بھیج دیا۔ ہم پان سگریٹ کی دکان پر گئے اور ہاتھی طلب کیا اس نے بھی کہکہا لگایا اور وغیرہ وغیرہ۔ میں نے علی کے سرد ہوتے گالوں پر ہاتھ پھیرا اور بوسا دے کر پوچھا اب بتاؤ کہاں جائیں؟ علی نے اوپر میری طرف دیکھا اور بولا ابو میرا خیال ہے ہاتھی دکانوں پر نہیں ملتے، میں نے اس کا مفلر درست کیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی اور کہا ہاں یار میرا بھی ایسا ہی خیال ہے۔ اگر تم کہو تو کل جا کر چڑیا گھر والوں سے پوچھ لیتے ہیں اور خرید بھی لیں گے۔ کیوں؟ ہاں یہ ٹھیک ہے علی نے پُر جوش ہو کر کہا اور ہم دونوں واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ میری بیوی اور میرے والد گھر کے باہر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ علی نے میرا ہاتھ چُھڑوایا اور بھاگ کر میرے والد کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ میرے والد نیچے جُھکے اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے کیوں پھر ہو آئے بازار؟ علی نے سر اوپر اٹھایا اور چِلا کر بولا دادا ابو دادا ابو، ہاتھی دکانوں پر نہیں ملتے اگر ملتے ہوتے تو میرے ابومجھے ضرور خرید کر دیتے۔علی کے یہ الفاظ میرے والد پر بم کی طرح گِرے ان کے منہ سے چینخ نکل گئی اور میں اپنے آنسو چھوپاتا ہوا اند چلا گیا۔ شاہد نے رُک کر آنکھوں پر رومال رکھ لیا۔
گاڑی آہستہ آہستہ منزل کی طرف بڑھ رہ تھی خاموشی کا وقفہ تو میں نے پو چھا یار اُستاد آپ کے والد کہ منہ سے چینخ کیوں نکلی تھیَ؟ شاہد نے چشمہ گود سے اُٹھایا اور اسے اپنی ناک پر جما کر بولہ اس لئے کہ بچپن میں جب ایک بار میں نے ہاتھی خریدنے کی ضد کی تھی تو میرے والد نے تھپڑ مار مار کر میرے گال سُرخ کر دیے تھے ہم تینوں خاموش تھے، اور اپنے اپنے بچپن کے ہاتھی تلاش کر رہے تھے ہم تینوں اپنے اپنے گال سہلا رہے تھے۔میں نے اپنا چشمہ اپنے ہتھیلی سے صاف کیا اپنی آنکھیں مسل کر بولا یار لوگوں کو کبھی ڈرائیورنگ کا شعور نہیں آ سکتا لائٹیں سیدھی آنکھوں میں مارتے ہیں۔ میری تو آنکھیں بھی خراب رہتی ہیں۔
___________________________________
حسن اقبال حسرت کا تعلق سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ سے ہے اور ان کی تعلیمی قابلیت بی-اے ہے۔
Load/Hide Comments