(عنوان کالم:نسیم سحر)
کاروبار حضرت انسان ہو یا پھرانسانی تہذیب و تمدن اور طرز بودو باش یا کہ پھر زسیت نا تمام کے بار ے میں افکار و نظریات ان سب میں مذاہب بنی نو انسان مرکزی اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں،کچھ قومیں دین کے ساتھ اس حدتک جڑ جاتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کوریاستی اعتبار سے مذہبی ملک ڈیکلیر کرتی ہیں جبکہ کچھ قومیں مذہب کو ثانوی حیثیت قرار دیتی ہیں اور ملک و قوم کو پہلے درجہ پر رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں اورکل 195ممالک میں سے96ممالک نے آئینی لحاظ سے اپنے آپ کوسیکولر یعنی لا دین ڈیکلیئر کر رکھا ہے۔جبکہ99ممالک مذہب سے وابسطہ ریاستی نظام رکھتے ہیں۔اور ان96لادین ریاستوں میں 27کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے اورنمایاں ممالک میں اتھوپیا،کنیا،نایئجریا،روانڈا،سنیگال،یوگینڈا اورجنوبی افریقہ و دیگر شامل ہیں
جبکہ اسی طرح براعظم یورپ کی 33 سیکولرریاستوں کے نمایاں ممالک میں جرمنی،فرانس،آئر لینڈ،اٹلی،پولینڈ،آسٹریا،نیدر لینڈ،سویڈن،سپین اور روس و دیگر شامل ہیں۔جبکہ 20 ایشیائی لادین ریاستوں کے نمایاں ممالک میں چین،جاپان،بھارت،ترکی،شمالی کوریا،تایؤان،ویت نام،فلپائین اور سری لنکا و دیگر شامل ہیں جبکہ شمالی امریکہ کی 7 ریاستوں میں کیوبا،ہونڈرس،میکسیکو،برازیل اور پیرو اور دیگر شامل ہیں۔ لیکن کیا وجہ کہ دنیا کی96 سیکولر ریاستوں میں سے ذات پات،رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز سے با لا تر ہو کراپنے شہریوں کو بنیادی حقوق کی بلا رکا وٹ فراہمی میں 95ریاستیں ایک طرف اور اس کے بر عکس اپنے شہریوں کے حقوق کی پا مالی،سلب اور جبر کے لحاظ سے واحد ملک بھارت ایک طرف،یہ کیسا ملک ہے جہاں بھارت تخلیق کے وقت اپنے فاؤنڈر لیڈر مہاتما گاندھی کے اپنائے جانے والے سیکولرازم کے بنیادی نظریہ سے منحرف ہوتے ہوئے عظیم ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نظریہ پر سختی سے عمل پیرا ہوتا جا رہا ہے۔
سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے اکھنڈہندو بھارت کی برسر اقتدارانتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی پارٹیشن کے بعد تاریخ کی بد ترین سول ڈکٹیٹرشپ سے کم ثابت نہیں ہوئی اوراس کی بنیادی وجہ ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے جنم لے کر بی جے پی کی کوکھ میں پرورشپانےوالا نام نہاد سیاسی گماشتہ بھارتی وزیر اعظم اور دور حاضر کافاشسٹ اور ہٹلر پالیسیوں کا علم بردار نریندرا مودی ہے جو کہ اپنی ظالمانہ پالیسیاں لاگو کرتے ہوئے بھارتی اقلیتوں پر زمین تنگ کرتا چلا جا رہا ہے اور مودی کی آمرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کا براہ راست خصوصی ٹارگٹ بھارتی مسلمان ہیں جو کہ کل آبادی کا 14%ہیں اور جن کی آبادی چھبیس کروڑ کے قریب ہونے کی وجہ سے بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہے اور اس اقلیت کو قیام ہندوستان سے لے کر اب تک کسی بھی حکومت نے دل سے گلے نہیں لگایا اور نہ ہی انکے بنیادی مذہبی،معاشرتی،معاشی اور سماجی حقوق فراہم کئے گے بلکہ ان کو بھارتی شہری کی بجائے الٹا بھارتی دشمن تصور کیا جاتا ہے ویسے تو بھارتی مسلم دشمنی کی بے شمار مثالیں اور ثبوت ہیں لیکن نمایاں حالیہ اقدامات میں چار ماہ قبل مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کا ختم کرنا اور مقبوضہ وادی کودنیا کی سب سے بڑی جیل بناتے ہوئے دنیا کا لمبا ترین کرفیو لگانا ہے جو کہ ابھی تک چل رہا ہے شا مل ہے۔جب اس حرکت سے بھی نریندرا مودی اور اس کے حواریوں کو سکون نہ ملا تو 12دسمبر 2019کو بھارتی پارلیمنٹ راجے سبھا نے بھارتی شہریت کے قا نون میں ترمیم کرتے ہوئے اسے تبدیل کر دیا اور اسے متنازعہ حثیت میں ہیCAB(Citizenship Amendment Bill) منظورکروالیا۔اور اس نئے متنازعہ بل کے تحت بھارت کے تین ہمسایہ ممالک پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے 6 مذاہب ہندو،سکھ،عیسائی،پارسی، بدھ مت اور جین مت سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو بھارتی شہری تصور کرتے ہوئے فوری شہریت دے دی جائے گی چاہے ان کے پاس قانونی دستاو یز موجود ہو یا نہ ہو جبکہ مسلمان تارکین وطن اس شہریت حاصل کرنے کا استحقاق نہیں رکھ سکتے دوسرے لفظوں میں اس ترمیم کو سیاسی پناہ کا نام دیا جا رہا ہے جس کا اصل مقصد بھارت کی پڑوسی ہمسایہ ممالک کی تمام اقلیتوں کوہجرت پر اکساتے ہوئے ان تینوں ممالک کو بدنام کرنے کی بھی ایک گھناؤنی سازش ہے وہ یہ کہ ان ملکوں کی اقلیت ان سے خوش نہیں ہے اور جوک در جوک بھارت کی طرف ہجرت کے خواہاں ہیں
اس شہری تر میمی بل کے رد عمل میں بھارت کے پورے شرق غرب میں احتجاجی مظاہرے شروع ہیں۔اور ان مظاہروں کو روکنے کے لئے بھارتی مرکزی اور صوبائی حکومتیں بد ترین ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے جس کا پہلا اور بڑا شکار دہلی کی یونیورسٹی جامیعہ ملیہ اسلامیہ ہوئی جہاں طلبہ و طالبات کے ہوسٹلوں میں گھس کے ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے تین ہفتوں سے جاری ان مظاہروں میں درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ہزاروں مظاہریں گرفتار ہیں متاثرہ نمایا ں شہروں میں دہلی،مبئی،بینگلور،کلکتہ و دیگر شہر اورمکمل صوبہ آسام،گجرات اور اتر بردیش شامل ہیں۔
ان احتجاجی مظاہروں کی نمایاں اور حیرت انگیز بات یہ کہ اس کے مظاہرین اور قائدین پورے بھارت کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے طالبعلم ہیں جن میں خاص طور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ کی علی گڑھ یونیورسٹی شامل ہیں اس بڑھ کر یہ کہ ان احتجاجی مظاہروں میں نہ صرف مسلمان طلبہ و طالبات بلکہ سر کردہ ہندو طلبا تنظیمں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی ہیں اور بلا تفریق مسلم ہندو طلبا کے منہ سے ترنم میں گائے جانے والے حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے انقلابی کلا م سخت ترین سردی کے باوجود احتجاج کے لئے نکلنے والے لاکھوں بھارتی طالبعلموں کی تحریکی روحوں کو گرما رہے ہیں۔بھارت کے اس متنازعہ شہری بل کے خلاف اور مظاہرین کے حق میں دوسر ی بڑی سیاسی جماعت کانگرس کے علاوہ بایئں بازو کی بہت سی تنظمین اور ایکٹیسوسٹ بھی میدان میں اتر چکے ہیں اور یہاں تک کہ کئی صوبوں کے وزر اعلیٰ نے بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس کر دہ اس متنازعہ بل پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیا ہے۔عوام کے اس مجموعی رد عمل نے یہ بات واضع کر دی کہ جب انتہا پسند لوگ جمہوریت کا سہارا لے کر تختہ حکومت تک رسائی حاصل کر لیں تو وہ ایک ریاست کے لئے کتنا
خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ عوامی منشا سے ہٹ کر جب حکومتیں اپنی پالیسیاں تھوپتی ہیں تو وہ ملک تباہی کے دہانہ پر کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ آج کا بھارت۔
بھارت میں اس وقت علیحدگی کی بڑی چھوٹی کم و بیش 65 تحریکیں چل رہی ہیں جن میں نمایاں،کشمیر،خالصتان،آسام اورناگا لینڈکی تحریکیں زور پر ہیں جنہیں بھارتی فورسز با زور شمشیر کچل رہا ہے،سیاسی بصارت رکھنے والے ناقدین و ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ بھارتی شہریت ترمیمی متنازعہ بل بھارت کے لئے سانپ کے منہ میں چھپکلی کے مترادف ثابت ہو گا جسے نہ نگلا جا سکتا ہے نہ اگلا جا سکتا ہے اور یہ مظاہرے
بھارت سے علیحدگی پسندی کی تحریکوں کے لئے آخری میخ ثابت ہونگے۔اور بھارت کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی ہیں ماضی میں جن کے نامور طالب علموں نے ہندو،انگریزوں اور سکھوں کی مشترکہ اور متحدہ مخالفت کے با وجود قائداعظم کا ہر اول دستہ اور بازوجان بن کر پاکستان کے مسلمانوں کے لئے آزادی چھینی اور یہ ہیرو ہماری آنے والی نسلوں کے اکابرین ٹھہرے اور آج بھارت کی انہیں جامعات کے طالب علم ایک بار پھر اپنے اجداد کے نقش قدم پر سر گرم عمل ہیں اور ان نوجوان خون کی جہد مسلسل کی بدولت وہ دن دور نہیں جب بھارت اپنی اکٹھنڈتا کا خواب ریزہ ریزہ ہوتا دیکھے گا اورمتحدہ روس کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔