نئی دہلی: (ویب ڈیسک) نئی دہلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی کے دوران بھارتی متنازع شہریت قانون کیخلاف احتجاج کے دوران ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، جھڑپوں کے دوران پولیس اہلکار، تین مسلمانوں سمیت 4 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ زخمیوں میں 37 پولیس اہلکار شامل ہیں، متعدد پٹرول پمپس، گاڑیوں اورسرکاری املاک کو جلا دیا گیا۔ حالات قابو سے باہر ہونے پر بھارتی فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 24 گھنٹوں کے بعد دوسری بار دہلی میں جھڑپیں ہوئیں، بی جے پی کے انتہا پسندوں نے شہریت بل کے خلاف احتجاج کرتی عوام پر دھاوا بول دیا جبکہ دہلی میں پتھراؤ کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والے پولیس افسر کا نام رتن لال ہے جو پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل کے عہدے پر کام کر رہا تھا، ہلاک ہونے والا پولیس اہلکار 1998ء سے پولیس میں ڈیوٹی کے فرائض انجام دے رہا تھا، انہوں نے ورثاء میں بیوی، دو بیٹیاں اور ایک بیٹے کو چھوڑا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق دیگر ہلاک ہونے والے مسلمان ہیں، جن کے نام محمد فرقان، محمد سلمان اور شاہد علوی کے نام سے ہوئی ہے۔ محمد سلیمان کا دہلی کے ظفر آباد علاقے سے تعلق جبکہ شاہد علوی کا تعلق اترپردیش کے بلند شہر سے ہے۔ ہلاک ہونے والا محمد سلیمان کی ٹانگ میں گولی لگی اور اس کی موت زیادہ خون بہنے سے ہوئی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق احتجاج کے دوران پتھراؤ کے باعث متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) امت شرما بھی زخمی ہوئے ہیں جنہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق انتہا پسندوں نے مسلم اکثریتی علاقے جعفر آباد اور موج پور میں گھروں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ دہلی کے علاقے موج پور، چاند باغ، کردمپوری، دلیاپور کے علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں۔
نئی دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ 10 پولیس اہلکاروں سمیت 30 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کریں گے۔
جوائنٹ کمشنر الوک کمار نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی سی پی شاہدرہ امیت شرما عوام کی جانب سے پتھراؤ کی وجہ سے زخمی ہو گئے ہیں۔ متعدد پٹرول پمپس،گاڑیوں اورسرکاری املاک کو جلا دیا گیا۔
شمال مشرق دہلی کے دس علاقوں میں پولیس نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے اور اس کے علاوہ شہر کے مختلف حصوں جیسے ظفر آباد، موج پور، سلیم پور اور چاند باغ سے تشدد اور ہنگاموں کی اطلاعات ملی ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں موجود مجمع کو سنبھالنے کے لیے پولیس کی نفری کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور جب انھوں نے لاٹھی چارج شروع کیا تو وہاں پر بھگدڑ مچ گئی۔
دوسری طرف نئی دہلی کے نور علاقے سے مسلمانوں نے خوف کے باعث گھر خالی کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
ایک بھارتی صحافی کا کہنا ہے کہ بلوائیوں کو بسوں میں بھر کر فسادات کے لئے لایا گیا، حالات چھپانے کے لئے گروپوں میں تصادم کا لفظ استعمال کر رہا ہے، برقعہ پہنی خاتون اور مسلمان شہریوں پرہجوم نے بدترین تشدد کیا۔
بھارتی صحافی کے مطابق بلوائیوں نے بھارتی مسلمان شہریوں کے سروں پر ڈنڈے برسائے، دہلی میں بی جے پی رہنما کپل مشرانے مسلمانوں کے خلاف ہجوم کو اکسایا تھا، بی جے پی رہنما کے اکسانے پر ہجوم نے احتجاج کرتی خواتین کے کیمپ کو نذر آتش کردیا، انتہا پسندوں کی فائرنگ سے تین مسلمان شہری جاں بحق ہوگئے۔
مزید برآں حالات کشیدہ ہونے کے بعد صورتحال قابو سے باہر ہونے پر پولیس اہلکاروں کی مدد کے لیے بھارتی فوج کے خصوصی دستے پہنچ گئے ہیں، 8 کمپنیوں کو مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ زیادہ تر کشیدہ حالات موج پور اور جعفر آباد میں ہے۔
دریں اثناء بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شدت پکڑے مظاہروں اور ہلاکتوں کے بعد کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پر امن احتجاج سب کا حق ہے۔ عوام سے مطالبہ کرتا ہوں کہ پر تشدد راستہ نہ اپنایا جائے۔
مزید برآں کانگریس جماعت کے دیگر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد پر نئی دہلی میں ہونے والے مظاہرے وزیر داخلہ امت شاہ کی ناکامی ہے، کیونکہ وزیر داخلہ دارالحکومت میں امن و امان قائم رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
نئی دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے وزیر داخلہ اور لیفٹیننٹ گورنر سے امن کی اپیل کی اور کہا کہ قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مدد کریں۔
لیفٹننٹ گورنر انیل بئیجل نے دہلی کے پولیس کمشنر کو حکم دیا ہے کہ امن و امان بحال کرنے کی پوری کوششیں کی جائیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا نے بھی ٹوئٹر پر پیغام میں لکھا کہ وہ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ امن کو برقرار رکھا جائے اور چاہے وہ شہریت کے قانون کے حامی ہوں یا مخالف، تشدد اور ہنگاموں سے گریز کریں۔
دوسری جانب رکن اسمبلی اسدالدین اویسی نے کپل مشرا کی ٹویٹ کے جواب میں انھی پر ہنگامہ آرائی کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ تمام ہنگامے بی جے پی کے رہنما کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔انھیں فوراً گرفتار کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز موج پور کے علاقوں میں مسلم خواتین نے شہریت بل کے خلاف دھرنا دیا تھا، بی جے پی کا مقامی رہنما انتہا پسندوں کے ساتھ دھرنا ختم کرنے آیا، دھرنے پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔