جسم میرا تو مرضی کس کی؟ تحریر: مہرین جمیل

میرا جسم میری مرضی ایک گالی نہیں ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ کی مرضی کے بغیر کوئی آپکو ہاتھ نہ لگائے۔ خواتین سے زیادتی نہ ہو۔ کسی بھی عورت کی زبردستی شادی نہ کی جائے۔کام کی جگہ پر اس کو حراساں نہ کیا جائے۔اگر وہ موٹی ہے۔تو اس بات پر بھی اسے شرمندہ نا کیا جائے ۔کوئی عورت اگر بیٹی پیدا کر رہی ہے تواسے اسقاط حمل پر مجبور نا کیا جائے ۔ ظاہر ہے میرا جسم ہے تو مرضی بھی میری ہی ہو گی ۔یہ ہےاس ایک جملے کا مطلب ۔ جس کو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے سمجھا اور زیادہ تر لوگوں نے اس کا منفی تاثر لیا اور کچھ مطلب پرست عناصر اس کو اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق اسکی تشریح کرنے لگے
مین ان سب حضرات سے پوچھتی ہوں جو یہ کہتے ہیں میرا جسم میری مرضی اگر ہمارے گھروں تک آگیا تو کیا ہوگا؟میرا سوال ہے کیا ہوگا؟ آپ کا خیال ہے کہ اس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں کپڑے اتارکر سڑکوں پر آجائیں گئ؟ اور کیا وہ پاگل ہیں کہ راہ چلتے کے ساتھ سونے کیلئے چل پڑیں گئی ؟۔ اپنے اس انا کے خول سے باہر آکر سوچیں جب آپ اپنے گھر کی عورتوں کی عزت کرتے ہیں انکا کسی قسم کا استحصال نہین کیا جا رہا تو میرا نہیں خیال کوئی بھی باشعور عورت گھر کی دہلیز بھی پار کرے گئی۔

بات میرا جسم میری مرضی سے شروع ہو کر گالم گلوچ اور ہماری تہزیب اور اسلام تک آگئی ہے ہر طرف طوفان بدتمیزی برپا ہے مرد اور خواتین کی بلاوجہ اور بے مقصد لفظی جنگ شروع ہو گئی اور ایسی جنگ جس میں آپکا ذاتی نقطہ نظر سن کر نا صرف آپکوبلکہ آپکے پورے خاندان کو گالیاں پڑیں گئ ۔ آپ کی آواز بلند کیا ہوئی آپکو درجے دئے جانے لگتے ہیں کسی آدمی کے پاس عورتوں کو درجے دینے کا حق نہیں ہے،، اگر عورتیں اپنے گھر کے مردوں کو درجے دیں تو میں دیکھوں کہ آپ میں کتنا دم خم ہے، کہ فلاں مرد اپنے کردار کی وجہ سے کس درجے پر ہے۔
عورت مارچ میں کچھ پلے کارڈ سے میں بھی متفق نہیں اور نہ ہی ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے والے عناصر کے حق میں ہوں جس سے ہماری اقدار اور ہمارے خاندانوں کا بیڑا غرق ہو جائے۔ہم رشتوں اور عزت بے عزتی کی تمیز بھول کر جانور بن جائیں۔ لیکن چند پلے کارڈ جن کو متنازع بنا دیا گیا ہے ان کے پیچھے حقیقت کچھ اور ہے ۔سالن خود گرم کر لو، جیسے نعرے کی بات کریں تو اسکا مطلب ہے کہ صرف میرے پر فرض نہیں ہے کہ میں بیمار ہوں یا تندرست ہوں کام میں ہی کروں ، اتنا سا کام آپ بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی کلچرہے کہ کچھ بھی ہو جائےگھر کے کام کرنا آدمی کی عظمت اور مردانگی کے خلاف ہے۔ہماری عورتیں برے حالات میں سارے کام خود کرتی ہیں۔ یہ زیادہ تر گھرانوں کی کہانی ہے صرف چند ایک کو استثی حاصل ہے ۔اس سلوگن کے پیچھے ہمارے معاشرے میں ہونے والے سنگین جرائم پر مبنی کئی داستانیں موجود ہیں کبھی شہ سرخی دیکھنے کو ملتی کہ گرم روٹی نا پکانے پر باپ نے بیٹی کو قتل کر دیا اور کہیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ سالن ٹھنڈا دینے پر شوہر بیوی کا گلہ کاٹ دیتا ہے ۔ ایسے ہی واقعات کے پیش نظر یہ نعرہ بلند کیا گیا ہے تا کہ اس سوچ کو تبدیل کیا جا سکے جس میں تمام زمہ داریاں خاتون پر ہی عائد ہوتی ہیں ۔

چند دن سے عورت مارچ کو لے کر جو شور و غل مچا ہوا ہے اس پر
میرے چند سوال ہیں کہ ہم عورت مارچ سے ڈر کیوں رہے ہیں ؟ اگر دیکھا جائےتو کیا ہمارے معاشرے میں وہ ساری برائیاں موجود نہیں ہے ؟ کیا آج بھی بچیوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہورہی؟کیا دفاتر میں خواتین کو حراساں نہیں کیا جاتا ؟ کیا آج بھی جائیداد میں آسانی سے حصہ مل رہا ہے ؟ کیا زبردستی شادیاں نہیں ہو رہیں؟ کیا لڑکی پیدا کرنے پر عورتوں کو اسقاط حمل پر مجبور نہیں کیا جا رہا؟ یہ سب برائیاں موجود ہیں ان برائیوں کی کچھ شرح وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہے اور کچھ کی شرح وقت کے ساتھ زیادہ ہو رہی ہے ۔
ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام صرف عورتوں کیلیئے آیاہےاور مردوں کومعافی ہے۔
۔ہم عورتوں کو تو چھوڑیں ہم پیدا ہی گنہگار ہوئی ہیں ہماری وجہ سے آپ مرد حضرات جنت سے بھی نکالےگئے ذرا اب آپ کی طرف آتے ہیں ۔ یہ کس اسلام اور معاشرے کی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ شادی شدہ ہوکر بھی باہر کئی عورتوں کے ساتھ چکر چلا سکتے ہیں، لیکن آپ کی بیوی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی،، کیونکہ اسلام نے منع کیا ہے، اور ہماری تہذیب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی،،تو آپ کو اجازت نامہ کہاں سے ملا،،؟؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر بہن کسی کو پسند کرتی ہے تب ہی آپ کی غیرت جاگے گی،، لیکن جب بھائی کسی کو پسند کرتا ہے تو خیر ہے کیوں کہ وہ تو کسی اور کی بہن بیٹی ہے ۔
حضرت فاطمہ کا آسمان سے رشتہ آنے کے بعد بھی نبی پاک ﷺ نے حضرت فاظمہ سے پوچھ کر ان کی حضرت علی سے شادی کی اور ہم اپنی بیٹیوں سے ان کی زندگی ، ان کی خوشیوں بارے میں پوچھنا توہین سمجھتے ہیں ۔
اسلام کا سہارہ بھی آپ اپنے مقاصد کی حد تک لیتے ہیں
جب جب عورتوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا گیا کہ اسلام خواتین کو تمام حقوق دے چکا ہے تو یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ
اسلام نے 1400 سال پہلے خواتین کے حقوق واضح کئے تھے جو کہ آج کے دور میں غصب کر لئے گئے ہیں اسلام خواتین کو عزت اور مقام تو دے رہا ہے مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب اس پر عمل پیرا نہیں ہیں،، مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ، وہ سربراہ ہیں محافظ ہیں، لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ آپ نے اسلام پر عمل نہیں کرنا،، اور عمل صرف عورتوں پر لازم ہے،،اگر معاشرہ عورتوں کو ان کے جائز حق دے تو بھلا کیوں میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگے،،

بہن کی پسند کا احترام کریں،، ان کو جائیداد میں حصہ دیں،، لڑکی کے پیدا ہونے پر عورت کو کوسہ نہ جائےاور سمجھا جائے یہ اللہ کی مرضی ہے اسلام میں بیٹی پیدا ہونے پر کہیں بھی ماتم نہیں منایا گیا۔۔ نبی پاک ﷺ اپنی بیٹی کی اتنی عزت کرتے تھے کہ ، ان کہ آنے پر نبی ﷺ کھڑے ہوکر استقبال کرتے تھے،،اور آج کے دور میں بھی کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو بیٹی پیدا ہونے پر غمزدہ ہوجاتے ہیں،، اسلام میں عورتوں کا جو مقام ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ہر میدان میں عورت نے مرد کے شانہ بشانہ کا م کیا، جنگوں میں پانی پلایا ، زخمیوں کی مرہم پٹی کی، حتیٰ کہ تجارت میں بھرپور حصہ لیا،
آیئے ہم ان انسان نما بھیڑیوں کو کیفرکردار تک پہنچایئں، جو ہمارے بچوں کو نقصان پہنچاتے ہیں،، عورت کی جسامت پر طنزیہ جملےکسنے والے اس بات کو یاد رکھیں کہ ہم سب کو بنانے والی ایک رب کی ذات ہے،،
اور اگر آپکو لگ رہا ہے کہ چند لبرل خواتین ہماری بچیوں کو غلط سبق پڑھا رہی ہیں،، تو اٹھیں اپنی ماں بہن اور بیٹیووں کے ساتھ کھڑئے ہوں،، اور اس مارچ میں شامل ہو کر بتائیں ،، کہ اگر کوئی ان سے زیادتی کرے گا،، یا بری نظر سے دیکھے گا، تو ہم ان کی آواز بنیں گے،،
اگر شر پسند عناصر شر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ کو انہیں معاشرے میں بیگاڑ پیدا نہیں کرنے دینا چاہیے ،ہمارے نبی نے زمانہ جاہلیت میں کسی کو برا بھلا کہے بغیر تبلیغ کی، نبی پاک نے اسلام پر خود عمل کیا، جس سے متاثر ہو کر بڑے بڑے پتھر دل انسان بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، لیکن اسلام کی رو سے ہم سب آپس میں بہن بھائی ہیں، پھر بھی ہم ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں،، سوچیں کہ ہماری کون کون سی ایسی کوتاہیاں ہیں، جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں معاشرتی طور پر اس شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تحمل سے سنیں اور معاشرے کی بہتری میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔

___________________________________

مہرین جمیل سپیرئیر یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان دنوں روہی نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کام کررہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں