زراورزیر، تحریر: ثناء آغا خان

کائنات میں احتساب کی ابتداءعزازیل سے ہوئی جوسزاکے طورپرابلیس یعنی شیطان قرارپایا جبکہ شجرممنوعہ کے پاس نہ جانے کے حکم الٰہی کی پاسداری نہ کرنے پرحضرت آدم علیہ السلام کوجنت سے زمین پراتاردیاگیا۔ اچھائی کا صلہ انعام جبکہ بدی یا برائی کا نتیجہ انجام بد ہے ۔روزمحشر درحقیقت انسانیت کا یوم احتساب ہوگااوروہاں کسی کو راہِ فرار نہیں ملے گی۔اگرقدرت اورفطرت کابغورجائزہ لیاجائے تو اس نظام میں ہرسطح پر احتساب کوخاص اہمیت حاصل ہے۔چوروں کیلئے کوئی حدودنہیں ہوتیں جبکہ ادارے اپنے آئینی دائرہ کار کے پابندہوتے ہیں ۔ اگرقیام پاکستان کے فوری بعد احتساب کیلئے کوئی خودمختاراوربااختیارادارہ بنادیاجاتا توآج ہماری ریاست اورمعیشت کی یہ حالت زارنہ ہوتی اورپاکستان پر اس قدربیرونی قرض کابوجھ نہ ہوتا۔ احتساب کاادارہ نہیں تھااسلئے طاقتورلوگ دھڑلے سے لوٹ ماراورچوری کاپیسہ بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔نیب بنانےوالی سیاسی قیادت کی نیت بھی احتساب کرنے کی نہیں تھی ۔ماضی میں احتساب کی آڑ میں سیاسی انتقام لیا گیا مگر ان دنوں ایساہرگزنہیںہے ۔آج نیب پوری طرح آزاد،خودمختار،غیرجانبدار اور مستعد ہے،وزیراعظم سمیت کوئی نیب حکام کوڈکٹیشن دینے یا کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔نیب قوانین میں ترمیم کی تجویز سے سیاسی قیادت کاتعصب اورخوف آشکارہوتا ہے ۔ چوری میں ملوث مخصوص سیاستدان آئین کی طرح نیب قوانین کوبھی موم کی ناک بنانے کے درپے ہیںجبکہ مادروطن کاعام آدمی نیب قوانین میں ترمیم تودرکنارکسی قسم کی نرمی کابھی حامی نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں چوری گناہ جبکہ چوری کاپیسہ بیرون ملک منتقل کرناگناہ کبیرہ ہے اورچوروں سے برآمدگی کیلئے محض ضابطہ اخلاق یعنی ایجنڈانہیں بلکہ ڈنڈا بھی ضروری ہے۔جس کسی نے پاکستان میں جائزناجائزطریقہ سے بنایاپیسہ بیرون ملک منتقل کیا وہ مادروطن کادوست نہیں بدترین دشمن ہے اورکوئی دشمن قابل رحم نہیں ہوتا۔ مجھے علم ہے ہرتین ماہ بعد خون کی ایک بوتل کاعطیہ دیاجائے تواس سے ہماری صحت پرمثبت اثرپڑتا ہے لیکن اگرکسی انسان کے وجود سے ایک ساتھ چھ بوتل خون نکال لیاجائے تویقینااُس کی موت ہوجائے گی،بالکل اس طرح معیشت کسی بھی ریاست کیلئے خون کی مانندہے اگرایک ساتھ خطیرسرمایہ نکال لیا جائے تواس ریاست کی معیشت آئی سی یومیں ایڑیاں رگڑنے لگتی ہے ۔
پاک فوج اورآزادعدلیہ کے بعدنیب ایساواحد منظم اورمتحرک ادارہ ہے جس سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں۔پاکستان جہاں کئی دہائیوں سے بدعنوانی اوربدانتظامی کادوردورہ رہا ہووہاں بے رحم احتساب کیلئے ” نیب ”کی ضرورت ،اہمیت ،قابلیت اورکمٹمنٹ پرکوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔چوروں کی طرف سے نیب حکام پرتنقیدبلکہ سیاسی مزاحمت اورمذمت کوان کیلئے اعزازی سند کہاجائے توبیجانہیں ہوگا۔پاکستان کیلئے نیب کادم غنیمت ہے،نیب حکام نے کئی بار چوروں سے بڑی رقوم برآمدکی ہیں اوریقیناآئندہ بھی ریکوری ہوگی۔ان دنوںچاروں صوبوں کے چور ایک ساتھ”انتقام انتقام” کاشورمچارہے ہیں اوریہ نیب کی کارکردگی کی شہادت ہے۔اگرتھانیدارکاڈر نہیں ہوگاتوچور دندناتے پھریں گے۔ میں سمجھتی ہوںنیب بھی کسی آسیب کی طرح چوروں اورلٹیرو ں کے اعصاب پرسوار ہے۔ ہم نیب کوختم نہ کرنے پرپچھتارہے ہیں،ایسا مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کاکہنا ہے ۔پیپلزپارٹی کی قیادت بھی نیب سے خوش نہیں ،آصف زرداری بھی” زر”اور”زور”سے نیب کو”زیر”کرنے کے درپے ہیںمگر نیب ہرگزمرعوب اورمغلوب نہیں ہوگا۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاویداقبال اورڈی جی نیب شہزادسلیم دونوں جوکام کررہے ہیں وہ سہل نہیں ،طاقتورچوروں پرہاتھ ڈالنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ظاہرہے گرفت میں آنے پر چور خاموش رہ سکتے ہیں اورنہ ان سے محتسب کیلئے نیک خواہشات کی امید نہیں کی جاسکتی۔چورمچائے شورکامحاورہ پاکستان کے قومی چوروں پرصادق آتا ہے۔ مٹھی بھرچوروں نے نیب کی گرفت میں آنے کے ڈر سے ایوانوں اورمیدانوں میں جہاں زورسے شورمچایاہوا ہے وہاں وہ محتسب پرانگلیاں بھی اٹھارہے ہیں۔نام نہادجمہوریت کوخطرہ ہے کاتاثردے کرریاستی اداروں کوبدنام کیا جارہا ہے مگر چوروں کی یہ منظم مہم بری طرح ناکام ہوگی ۔ اگرچوروں کوریاستی اداروں پرحملے اوران کامیڈیاٹرائل کرنے کااستحقاق ہے توپھرڈی جی نیب شہزادسلیم کاانٹرویوبھی کوئی گناہ نہیںتھامگرایک منظم مہم کے تحت اس انٹرویوکومتنازعہ بنایاگیا تھا۔نیب ایک آئینی ادارہ ہے ،چور کس طرح کسی محتسب کوکٹہرے میںکھڑاکرسکتے ہیں ۔ڈی جی نیب شہزادسلیم نے اپنے انٹرویومیں چوروں کے طریقہ واردات پر تبصرہ کیا تھااورچوروں کاکوئی استحقا ق نہیں ہوتا۔نیب کے حکام اورنظام پرعام آدمی نے کوئی نکتہ چینی نہیں کی بلکہ وہ مخصوص طبقہ نیب پربرس رہاہے جس نے مسلسل کئی دہائیوں تک قومی وسائل میں نقب لگا تے ہوئے بیرون ملک اپنی تجوریاں بھری ہیں۔
ریاستی اداروں کیخلاف زہراگلنا ناقابل فہم اورناقابل برداشت ہے۔شواہد کے بغیر اداروں پرتنقید کافیشن کرپشن سے زیادہ خطرناک ہے،کسی ملزم کومحتسب پرچارج شیٹ لگانے کاحق نہیں پہنچتا۔چوروں کے احتساب کیلئے نیب کاوجودغنیمت ہے،عوام اداروں کی مزید مضبوطی کے خواہاں ہیں۔طاقتورچوروں کیخلاف کمزورلوگ شہادت دینے سے ڈرتے ہیں،اس کے باوجود نیب نے اپنے آئینی کردارسے انصاف کرتے ہوئے چوروں سے خطیرقومی سرمایہ بازیاب اور شہریوں کااعتماد حاصل کیا ۔نیب نے بڑے مگرمچھوں اوربڑی مونچھوں والے چوروں کوگرفت میں لیاتاہم چوروں سے چوری منوانااورلوٹ کھسوٹ کی رقوم نکلواناکوئی آسان کام نہیں ۔ڈی جی نیب شہزادسلیم کے انٹرویوپرپابندی عائد کردی گئی ہے مگر چور ان کیخلاف پروپیگنڈا کرنے میں آزاد ہیں ،انہیں کون روکے گا۔ مجاہدکامران نے اپنی صفائی دینے کی بجائے الٹا نیب پرکیچڑاچھالنا شروع کردیا،نیب حکام پر گرفتارچوروں کی”گھر جمائی ”کی طرح آﺅبھگت کرنافرض نہیں۔نیب میںگرفتارچوروں کوجوسہولیات اورمراعات دستیاب ہیں وہ ہرگز اس کے مستحق نہیں ہیں،شہبازشریف عدالت میںپیشی پراورپارلیمنٹ میں جس طرح آتے تھے ان کی حالت کسی بھی اندازسے اسیر کی نہیں لگتی تھی ۔ نیب کیخلاف شورمچا نا چوروں کی عادت اورضرورت ہے ، شہری نیب قوانین میں ترمیم کی اجازت نہیں دینگے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاویداقبال اورڈی جی نیب شہزاد سلیم کاکوئی نجی ایجنڈا نہیں ،احتساب کاڈنڈا صرف چوروں کیلئے ہے۔ چوروں کے حقوق کی دہائی دینے والے پاکستان اورپاکستانیوں پررحم کریں۔نیب حکام اپنے مدمقابل بدعنوان اوربدزبان عناصر سے مرعوب ہوئے بغیر احتساب جاری رکھیں ۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاویداقبال اورڈی جی نیب شہزاد سلیم نے قومی وسائل میں نقب لگانیوالے بااثر مافیاز کے احتساب کابیڑااٹھایا، لہٰذاءانہیں ٹارگٹ کیاجانا فطری ہے۔ چوروں کاگروہ اپنے بے سروپا بیانات سے عوام کو آزادعدلیہ ،افواج پاکستان اور نیب سمیت ریاستی اداروں سے متنفریابیزارنہیں کرسکتا۔ اگرنیب حکام نے چوروں کے احتساب کومنطقی انجام تک نہ پہنچایا توتاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی ۔
چوروں کااحتساب کرناجہادہے،اس حساب سے ڈی جی نیب شہزادسلیم مجاہد ہیں۔ایوانوں سے میدانوں تک چوروں کاگروہ اپنے” زور”کے بل پراپناسیاہ ”زر”چھپانے یابچانے کاخیال دل سے نکال دے،نیب یقیناباری باری ہرایک چور اورمنہ زورکوقانون کی نکیل ڈالے گا ۔ظاہر ہے قانون کے شکنجے میں آنے پرچوردیوانہ وارشورمچایاکرتے ہیں،نیب حکام کو ان کی پرواہ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ۔بالخصوص جہاں چوروں کی تعداد بہت زیادہ ہووہاں یہ گروہ اپنے بچاﺅکیلئے ریاست اورریاستی اداروں پراپنابھرپوردباﺅڈالتا ہے،عوام پرعزم نیب حکام کی پشت پرکھڑے ہیں۔ منتخب ارکان اسمبلی نے ہردورمیں ایک دوسرے کوچور قراردیا، اگر نیب حکام یاکسی قلم کار سمیت کسی دوسرے نے پارلیمنٹرین کوچور کہا توان کااستحقاق کس طرح مجروح ہوگیا۔ڈی جی نیب شہزاد سلیم کے انٹرویوزکوبنیادبناکراپوزیشن پارٹیوں کااحتجاج نیب کومرعوب اوربلیک میل کرنے کی ناکام کوشش تھی ۔پاکستان میں کوئی آئین اور قانون سے ماورانہیں ہے،جوکوئی چوری اورقانونی شکنی میں ملوث پایاگیا اس کااحتساب ضرورہوگا۔ اگربدعنوانی کاباب بندکرناہے تونیب کوچوروں کیلئے آسیب بناناہوگا۔اپوزیشن رہنماﺅں کی زبانیں چلتی ہیں جبکہ ڈی جی نیب شہزادسلیم کاکام بولتا ہے۔ نیب حکام ہرگز سیاسی انتقام میں ملوث نہیں، چوروں سے یقینا ملک وقوم کی ایک ایک پائی وصول کی جائے گی ۔نیب قوانین میں نرمی کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں مزید سخت کرناہوگا۔ چوروں کو جوپیسے کی” گرمی” ہے وہ قانون میں ”نرمی” سے دورنہیں ہوگی۔چوروں کے” شور”سے عوام کا”شعور” متاثر نہیں ہوگا۔
نیب حکام کیخلاف انتقام کا تاثردرست نہیں۔عام آدمی کے نزدیک نیب حکام کی مجموعی کارکردگی قابل قدراورقابل رشک ہے۔پاکستان میں فوج اورنیب سمیت ان ریاستی اداروں کوزیادہ تنقیدکانشانہ بنایاجاتا ہے جواپنے کام سے انصاف کر تے ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی اورانصاف کی فراوانی کیلئے چوروں کے قلوب میں قاضی اورمحتسب کاڈر ہونا ضروری ہے۔ نیب اوراحتساب کے ڈر سے انتقام انتقام کا شورمچانیوالے چور باشعورعوام کوگمراہ کرنے میں ناکام رہے،کوئی باضمیر انسان کسی چورکا حامی یاہمدردنہیں ہوسکتا۔ اگرپاکستان نے اپنے مخلص دوست چین کی طرح کرپشن کاٹائی ٹینک سمندربردکرناہے توہرسطح پرچوروں کیخلاف کریک ڈاﺅن کرناہوگا۔نیب حکام معاشرے سے کرپشن ختم کرنے کیلئے چوروں سے مرعو ب ہوئے بغیراپناآئینی کرداراداکر تے ر ہیں۔ نیب ،ایف آئی اے اورپولیس سمیت دوسرے انتظامی ادارے ایک دوسرے کابازوبن کرریاست کی طاقت اورمضبوطی کیلئے زیادہ بہتراندازسے اپنااپناکرداراداکر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں