وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں انھیں کرونا وائرس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف حکومت صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکتی، قوم کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب میں کہنا تھا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں کرونا وائرس سے ملک میں افراتفری نہ پھیل جائے۔ ہمیں علم تھا کہ اگر چین میں یہ وبا پھیلی تو پاکستان بھی پہنچے گی۔ پندرہ فروری سے ہم نے تمام ایئرپورٹس پر سکریننگ شروع کر دی تھی۔ پاکستان میں 26 فروری کو پہلا کیس آیا۔ انہوں نے اٹلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی حکومت نے ابتدائی طور پر اس وبا سے بچاؤ کیلئے کچھ اقدام نہیں اٹھائے لیکن ان لاک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔ امریکا نے شروع میں کچھ نہیں کیا اب وہ شہر بند کر رہے ہیں جبکہ برطانیہ نے ابھی تک مختلف طریقے استعمال کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک قسم کا فلو ہے جس سے متاثر ہونے والے 97 فیصد افراد صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ صرف چار سے پانچ فیصد افراد کو ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ 80 فیصد مریض ایسے ہیں جنھیں صرف نزلہ زکام ہوتا ہے۔ تاہم اس کی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور جن کی قوت مدافعت کم ہو ان پر حملہ کرتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر وبا پر قابو پانے کے اقدامات پر نظر ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس سے وہ حالات نہیں جو یورپ امریکا میں ہیں۔ اگر ہم بھی شہر بند کرتے تو لوگ بھوک سے مر جاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کیخلاف جنگ تنہا نہیں لڑی جا سکتی۔ قوم حکومت کا ساتھ دے تو مل کر کرونا کو شکست دی جا سکتی ہے۔ چین اس وبا کیخلاف ہماری مدد کر رہا ہے اور ہم اس وائرس کو کنٹرول کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ چین کی عوام اور حکومت نے مل کر اس کیخلاف کامیابی حاصل کی۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کرونا وائرس کی آڑ میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو سخت متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات سے باز رہا جائے ورنہ سخت ایکشن لیا جائے گا۔
انہوں نے عوام کو حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ہاتھوں کو زیادہ سے زیادہ صابن سے دھوئیں، ہاتھ ملانے سے گریز کریں کیونکہ ہاتھ ملانے سے وائرس منہ اور آنکھوں پر آتا ہے۔ ہاتھ ملانے سے یہ وائرس زیادہ پھیل رہا ہے۔ بند کمروں میں جہاں زیادہ لوگ جمع ہیں وہاں نہ جائیں اور بڑے اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔ اگر آپ کو زکام یا کھانسی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ وائرس کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں ٹیسٹ کروانے نہ جائیں۔