میرا جسم میری مرضی یا دہشت زدہ مرد فیصلہ آپ کا؟ تحریر: حسن نصیر سندھو

میں نے ہمیشہ کی طرح ایک لمبی سانس لی اور اپنے چہرے کے سامنے منظر کی طرف دیکھا۔ جس جگہ پر میں بیٹھا تھا یہ گاؤں کے گھر کی چھت پر ایک چبوترا تھا۔ میرے سامنے گندم کے کھیت تھے۔ فصل پک کے تیار ہو چکی تھی اور ہوا چلنے سے ایسے لہراتی تھی جیسے ہوا کہ اوپر کندن سونا پانی کی طرح موجیں کھاتا ہوا آ رہا ہو۔ میرے نزدیک دنیا کے خوبصورت مناظر میں سے ایک خوبصورت منظر ہے جسے دیکھ کر شاید انگریزوں نے برصغیر کو سونے کی چڑیا کہا ہو۔ یہ منظر بچپن سے لے کر آج تک مجھے تازگی اور نئی طاقت کا احساس دلاتا ایا ہے۔ پراج اندر کہیں بہت افسردگی تھی۔ آج وہ تازگی محسوس نہ ہوئی میں نے پھر ایک لمبی سانس کھینچی لیکن اتنی آکسیجن اندر لے جانے کے باوجود بھی تازگی آنے کی بجائے افسردگی مزید طاری ہوگئی۔
میں نے وجوہات پر غور کیا تو اپنے بچپن کے دنوں کی طرف چلا گیا ہمارے گھر کا کشادہ برامدہ تھا جہاں صبح سویرے ماں جی معمول کے مطابق فجر کی نماز کے بعد دہی سے مکھن نکالتی تھی میں حسب معمول والد کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ کے گھر برآمدے میں داخل ہوا تو مانے چمچ بھر کر مکھن فارن میرے منہ میں ڈال دیا اور میں منہ بسورتا ہی رہ گیا۔ ماں نے پیار سے میرا ماتھا چوما جس کی ٹھنڈک اور سکون میری روح تک اتر گئی اور کہا بیٹا یہ مکھن خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہے اسے کھاتے منہ نہیں بناتے۔ اور اگر تم مکھن نہیں کھائے گا تو دوسرے لڑکوں کی نسبت چھوٹا رہ جائے گا۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں جب میں کھیل کر گھر آتا اور باہر دروازے سے آواز لگا دیتا “روٹی” اور باورچی خانے تک آتے ہی اماں میرے ہاتھ میں پیار سے روٹی پکڑا دیتی جو کبھی پوری ہوتی کبھی روٹی سے ایک نوالہ ٹوٹا ہوتا۔ اور میں کبھی نہ سمجھ پایا کہ ماں نے اپنی بھوک کو مار کے مجھے روٹی تھما دی ہے اور پیار سے مجھے کھاتا دیکھتی رہتی اور اپنی بھوک کو میری بھوک کے مٹنے سے مٹا دیتی۔
پھر مجھے اپنی بہنیں یاد آگئیں۔ جو اپنے حصے کا دودھ کبھی کسٹرڈ اور کبھی فروٹ چاٹ مجھے دے دیتیں۔ سردیوں میں رات کو سونے سے پہلے جب رضائی گرم کرنے کا وقت آتا تو سب اماں کو دیکھتے لیکن اماں پہلے میری رضائی کو اوپر لے کر گرم کرتیں تو بہنیں بھی مسکرا دیتیں۔
سردیوں کا وہ چمکدار دن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب چھت پر سرخ مرچیں خشک کرنے کے لئے ڈالی ہوئی تھی تو میں نے مذاقا اپنی بہن سے پوچھا کہ اپ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے تو اس نے پیار سے کہا دنیا میں ہر چیز سے زیادہ۔ میں نے کہا میں نہیں مانتا۔ میری بہن نے کہا اچھا کیسے یقین کرو گے؟ تو میں نے شرارت سے کہا یہ مرچیں کھاؤ پھر یقین آئے گا تو میری بہن نے مرچیں کھانا شروع کردی آنکھوں میں آنسو آگئے پر مرچیں کھانا نہ چھوڑیں۔
ایسے اور ان جیسے پتا نہیں ان گنت اور کتنے واقعات ہیں پر والد صاحب ہمیشہ ایک مصنوعی جلالی کیفیت میں یاد رہے پھر ہر بہار کی طرح جیسے خزان آتی ہے اور میری آزادی اور خوشیوں کو جیسے نظر لگ گئی ہو سب گھر والوں نے میرے لاکھ نا کرنے کے باوجود میری شادی کردی۔ اور میں نہ سمجھ اپنی زندگی کے اس حصے کی خوشیاں بھی سمیٹنے لگا۔ پر اب کچھ تبدیلیاں زندگی میں آگئی مجھے اپنا پورے دن کا کھیل کود چھوڑ کر اب نوکری کرنا پڑی۔ اپنے دوستوں کا پرتکلف اور پرلطف ساتھ چھوڑ کر دفتر کے کام کاج کا بوجھ اٹھانا پڑا وقت کو تو جیسے پر ہی لگ گئے ہوں ایک بچے کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا۔
اذان کی آواز سے میں چونکا تو دیکھا اندھیرا ہوچکا تھا مغرب کی اذان پتہ نہیں کب ہوئی اب تو عشاء کی اذان ہو رہی تھی وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور چاند بھی۔ چاند کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ اکثر رات کے وقت جب اباجی کہانی سنایا کرتے تھے تو ہم چاند کو دیکھتے دیکھتے سو جایا کرتے تھے پر اب تو چاند کو دیکھے کتنے سال بیت گئے تھے۔ گھر کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے صبح سے رات تک کام کی تھکن اتنی ہوتی کہ گھر آکر کھانا کھاتے ہی، تھکن سے چور بستر پر لیٹتے ہی نیند کی گہری وادیوں میں چلا جاتا ہوں۔ ماں کے ہاتھ کا مکھن کھائے ایک زمانہ ہو گیا پر اصل اداسی کی وجہ تو شاید کچھ اور تھی اداسی کی وجہ یہ نہ تھی اب میں عید پر اپنے نئے کپڑے اور جوتے اس لیے نہیں لے پاتا تھا کہ اپنے بچوں کے لئے لے لو اور کچھ پیسے ان کے مستقبل کیلئے سنبھال لوں۔ اداسی کی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ میں شادی کے بعد گدھوں جیسی محنت کی زندگی گزار رہا ہوں۔ وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ مجھے عرصہ ہوا کسی پرفضا مقام کی سیر کیے یا اچھے ریسٹورنٹ کا کھانا کھائے۔ وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ اب اکثر ہفتے غرض مہینے ہو جاتے دوستوں سے ملاقات کئے۔
آٹے کی چکی چلنے کی آواز سے میں دوبارہ چونکا۔ دور کہیں سے ہوا کو چیرتی ہوئی چکی کی خوبصورت آواز میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ یہ آواز جو کبھی میرے دل کو سکون دیتی تھی آج اتنا ہی میرے دل کو اداس کر رہی تھی۔ اب اداسی کی وجہ مجھے سمجھ اانے لگی وہی ماں جس کے پاؤں تلے میری جنت ہے جس نے اپنا پیٹ کاٹ کر میرا پیٹ بھرا شادی کے بعد مجھے شک کی نگاہوں سے دیکھتی ہے کہ میں بیوی کا ہوگیا ہوں۔ وہی بیوی جو میری خاطر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر آئی۔ جس کی سکون کی خاطر میں نے دن رات کام کیا، سمجھتی ہے میرا شوہر بدل گیا ہے، اور اپنی بہن اور ماں کی پٹیوں پر چلتا ہے۔ وہ بہنیں جو اپنا سب کچھ مجھے سمجھتی تھیں۔ اب تمام حالات کا قصوروار مجھے سمجھتی ہیں۔ مرچیں کھانے والی بہن اب مرچیں لگانے والی باتیں کرتی ہے۔ بچے جن کا اچھا مستقبل بنانے کے لیے میں نے اپنا حال تباہ کر لیا وہ مجھے نکھٹو سمجھتے ہیں۔
لیکن اصل اداسی تو ٹی وی پر یہ خبر سن کر ہوئی جب ایک عورت جو عورتوں کے حقوق کی علمبردار ہے نے کہا کہ مرد تو اصل دہشت گرد ہوتے ہیں جو عورتوں کے حقوق ضبط کیے بیٹھے ہیں۔ جب سے اس خاتون کے یہ الفاظ سنے میرا دل ڈوب سا گیا ہے کان سائیں سائیں کر رہے ہیں دماغ چکرا رہا ہے۔ اور ان تمام حالات میں والد صاحب وہی مصنوعی غصہ لیے ہمیشہ کی طرح میرے سامنے ہیں۔ شاید صرف وہی میری اصل کفیت سمجھتے ہیں۔ یا دنیا کا ہر مرد میری کیفیت سمجھ سکتا ہے جو اپنے خاندان کے لیے جی رہا ہے اور اپنا جسم کاٹ کاٹ کر اپنے کنبے کو کھلا رہا ہے۔ صد افسوس جب فیمینزم اور خواتین کے حقوق کے علمبردار ہم جیسے مردوں کو دہشتگرد قرار دیتی ہیں۔ شاید کچھ مرد ہوں ایسے۔ پر پاکستانی معاشرے کے مرد ایسے ہیں جیسے کہ ہم یعنی اپنے ماحول اور رحمتوں کو لے کر بھی ہر طرف سے خوفزدہ، محنت کرکے بھی مستقبل کے لئے خوفزدہ، اپنے خاندان کے لیے اپنی بہنوں کے لیے اپنی بیویوں کے لیے اپنے بچوں کے لئے اب آپ ہی فیصلہ کریں ہم دہشت گرد ہیں یا دہشت زدہ۔
__________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں