رانا جی!! معاف کرنا، تحریر: حسن نصیر سندھو

زندگی بڑی تیزی سے بدلتی ہے جیسے کلاس روم سے آفس, کتابوں سے فائلیں, جینز سے فارمل ڈریسنگ, پاکٹ منی سے سیلری, لیکن زندگی میں اگر کچھ نہیں بدلتا تو وہ کمبخت دوست کبھی نہیں بدلتا دوست کمینے کے کمینے ہی رہتے ہیں اچھا دوست کتنی دفعہ ہی کیوں نہ روٹھ جائے اسے منا لینا چاہیے۔ کیونکہ پتا نہیں وہ کمینہ کب ذوالفقارمرزا بن جائے اور سارا راز ٹیلی کاسٹ کردے۔ ویسے بھی جب کسی پر کوئی سختی آجائے تو اسے چاہیے کہ اپنے دوست سے اس کا ذکر کرے کیونکہ اس کے چار نتیجے نکلیں گے۔

نمبر1: یا اپنے ذمے لے لیے گا۔

نمبر2: یا مدد کرے گا.

نمبر3:یامشورے سے رہنمائی کرے گا.

نمبر4: یا یقینا کہے گا تیرے کرتوت ہی انج دے نئے میں کی کراں۔

ہمارا ایک دوست رانا جی کے پاس بیٹھا اپنی پریشانی بیان کر رہا تھا کہ ایک آنسو نکل آیا۔ رانا صاحب دیکھ کر ضبط کرگے۔ دوسرا آنسو نکلا تو رانا صاحب نے رومال سے صاف کردیا۔ تیسرا آنسو نکلا تو ایک تھپڑ لگایا اور بولے لے اب کھل کے رو لے۔

آپ لوگوں کے لئے رانا صاحب ایک انجان شخصیت ہیں ان کا مختصر تعارف ضروری ہے رانا صاحب اپنے گاؤں میں صوفی کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ پورے گاؤں میں بقول ان کے ان سے زیادہ شریف لڑکا کوئی نہیں آپ درمیانہ قد کے، چہرے پر چھوٹی داڑھی اور مونچھوں کا ایک بڑا ساجال سجائے رکھتے ہیں۔ آنکھوں میں ایک پرسرار سی شرارت اور ہمیشہ سفید لٹھا پہنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہی کالج میں ریاضی کے لیکچرار ہیں اور ایم فل بھی ریاضی میں ابھی تک کررہے ہیں۔ ابھی تک اس لیے کہا کہ باقی کے ساتھی جن کے ساتھ ایم فل شروع کیا تھا وہ ایک سمسٹر پہلے ایم فل ختم کرچکے ہیں۔

رانا صاحب ایک مضمون میں فیل ہو گئے تھے۔ وجہ جب دریافت کی تو بڑے جوش سے بتایا کہ چاروں سوال آتے تھے ہم نے پوچھا پھر کیوں فیل ہوئے؟ کہتے جب دو سوال کر لئے تو پیچھے بیٹھی لڑکی نے کہا کہ سوال کرادو۔ بس میں نے سوچا “رانا پوری زندگی پیپر ہی کیتے نے پہلی واری کڑی نے پوچھیا ہے بس پورا پیپر انھو ہی کرواندا رہیا” اور موصوف خود فیل ہو گے آج کل وہ محترمہ ہائی سکول کی پرنسپل ہے اور رانا صاحب اپنے جونئیرز کے ساتھ کلاس لے رہے ہیں۔
ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ میں نے زندگی میں کوئی روزہ توڑا تھا۔ جس کی سزا مجھے رانا صاحب کی دوستی کی شکل میں دنیا میں مل رہی ہے کیونکہ رانا صاحب بالکل “بھنڈی” کی طرح ہے ان کا سر جہاں چپکا دو، چپکے رہتے ہیں۔

رانا صاحب کو سمجھانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کیسے پونے چار گھنٹے ان سے مغز ماری کرکے ان کی منگنی کے سوٹ پہ ویسکوٹ ان کو پسند کر آئی اس واقعے سے کہانی یاد آئی۔ ایک دفعہ جنگل میں دن کے وقت میں ایک چیتا اور گدھے کی بحث ہو رہی تھی کہ آسمان کا رنگ نیلا ہے۔ چیتے نے کہا آسمان کا رنگ نیلا ہے اور گدھے نے کہا کالا ہے حالانکہ بات چیتے کی ٹھیک تھی تو چیتے نے کہا چلو جنگل کے بادشاہ شیر کے پاس چلتے ہیں دونوں شیر کے پاس گئے اور واقعہ سنایا تو شیر نے کہا چیتے کو جیل میں ڈال دو چیتے نے احتجاج کیا کہ بادشاہ سلامت بات بھی میری ٹھیک ہے اور جیل میں مجھے جانا پڑا ہے۔ تو بادشاہ نے کہا کہ بات سچ اور جھوٹ کی نہیں۔ تمہاراقصور یہ ہے کہ تم نے گدھے سے بحث کیوں کی۔

رانا صاحب کو ان کی منگنی پر سسرال والوں کی طرف سے ون ٹو فائیو بائیک تحفہ میں ملی۔ رانا صاحب اپنی جان سے زیادہ اس بائیک کا خیال رکھتے۔ اگر چھت پر بیٹھے ہوتے تو ہر پندرہ منٹ کے بعد بائیک کو اوپر سے دیکھتے، اگر کیچڑ سے گندا ہو جاتا تو خود دھوتے۔ پوچھا گیا کہ آپ اتنا خیال کیوں رکھتے ہیں بائیک کا تو بڑی رازداری سے بتایا کہ یہ بائیک نہیں دراصل ان کی شادی کی چابی ہے سسرال والوں نے یہ جانچنے کی کوشش کی ہے کہ میں جتنا بائیک کا خیال رکھوں گا اتنا ان کی لڑکی کا خیال رکھوں گا۔ افسوس کے چند دن بعد ہی نامعلوم چور رانا صاحب کی شادی کی چابی کو معذرت سے رانا صاحب کی ون ٹو فائو بائیک چوری کرکے لے گئے۔ آج کل اس غم اور شش وپنج میں جی رہے ہیں کہ ان کی شادی کا کیا بنے گا۔ اور ہمیں یہ فکر ہے کہ اگر شادی ہوگی تو اس لڑکی کا کیا بنے گا۔
رانا صاحب دوستوں کے ساتھ رقیبوں والا سلوک رکھتے ہیں کوئی بھی دوست ان کے “شر” سے محفوظ نہیں جو دوست درد کو سمجھتا ہے وہ کبھی درد کی وجہ نہیں بنتا اور جو دوستی سچی دوستی کرتا ہے وہ درد سہنا توجانتاہے پر دینا نہیں جانتا۔ مگر رانا صاحب اپنی ذات میں ایک درد ہے۔ لہذا تمام دوستوں کے لئے سردرد ہیں رانا صاحب شکل سے خصوصا حلیہ سے کسی بھی ان پڑھ گوار سے کم نہیں لگتے مثلا ایک دفعہ وہ نظر چیک کرانے ڈاکٹر کے پاس چلے گئے ڈاکٹر نے سنجیدگی سے پوچھ لیا کیا آپ کو اے بی سی آتی ہے۔ وہیں رانا صاحب نے ایک مریضہ کو دور سے گھورنا شروع کر دیا کیونکہ دور کی نظر کمزور ہے تنگ آکر مریضہ نے رانا جی کو لعنت کا اشارہ کیا۔رانا جی نے اپنے کزن کو کہنی مار کے کہا لیے آج پانچ بجے کا ٹائم فکس ہو گیا دوست نے فخر سے رانا صاحب کی کمر پر تھپکی دی اور بولے آدمی اسی کو مارتا ہے جسے پیار کرتا ہے۔ رانا جی نے کلینک میں ہی دو تھپڑ چار لاتیں دس ڈنڈے مارے، مار مار کے دوست کی حالت بری کردی اور بولے تو کیا سمجھتا ہے میں تجھ سے پیار نہیں کرتا۔
رانا صاحب کی ایک بات سمجھ سے باہر ہے جب کوئی ان سے مذاق کرتا ہے تو اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں اور جب کوئی سنجیدہ بات کرتا ہے تو وہ ہنس ہنس کے جذبات کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ایک دن ہمیں رانا صاحب کی مدد کی اشد ضرورت تھی ہم نے فون کیا. السلام علیکم!! رانا جی کیا حال ہے آپ کا؟ رانا جی: میں ٹھیک ہوں ویرا تو سنا تیرا کی حال اے؟ میں نے کہا: میں ٹھیک ہوں۔ ایک کام تھا ۔ تو رانا جی بولے: ہاں تو کرلے ہم بعد میں بات کریں گے۔ رب راکھا. ایک دن ہم نے اپنے کانوں سے سنا رانا صاحب کلاس میں بچوں کے دانتوں کو بچانے کے تین طریقے بتا رہے تھے. نمبر1: روزانہ برش کریں. نمبر 2: چاکلیٹ اور سویٹس کم کھانا۔ نمبر3: مجھ سے کبھی پنگا مت لینا۔
ماشاءاللہ رانا صاحب آج کل چائنا میں ریاضی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں وہ بھی ایک اعلی تعلیمی سکالرشپ پر۔ ہمیں شک ہے کرونا وائرس بھی رانا جی سے ڈرتا ہوگا۔

__________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں