کرونا سے چھیڑ خانیاں، تحریر: حسن نصیر سندھو

پاکستانیوں کے دل تو پہلے بھی نہیں ملتے تھے موجودہ صورتحال میں ہاتھ ملانے سے بھی گئے۔ پاکستانی جوڑی شادی سے پہلے تم نہیں تو میں نہیں جیسے وعدے کرتے ہیں اور شادی کے بعد “لے فیر تو نہیں یا میں نہیں” کے اصول پر کاربند نظر آتے ہیں اور کرونا انے کے بعد ‘کوئی وی نئیں” کی صورتحال نظر آرہی ہے۔ اگر پاکستانیوں کی ذہانت کے حساب سے درجہ بندی کی جائے تو پہلے نمبر پر ٹیلنٹڈ لوگ آتے ہیں پھر الٹرا ٹیلنٹڈ اور پھر آتے ہیں وہ لیجنڈ جو گلی محلے میں طب کی دکان کھول کر لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ہم بھی اس جان لیوا وائرس پر گفتگو کرنے کے لئے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لئے اپنے محلے کے ایک نیم ڈاکٹر کے پاس تشریف لے گئے۔
مصوف کہتے ہیں سائنس اسٹوپڈ ہے جو کہتی ہے پانی ابالنے سے جراثیم مرجاتے ہیں لیکن (زور دیتے ہوئے) جراثیم کی لاشیں تو پانی میں ہی رہتی ہیں. اور تو اور انگریزوں کو سقراط کی اولاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انگریز ہماری الف بے کو A ٹو Z کہتے ہیں. ہم ان کو پاگل اور یہ ہمیں “میڈ” کہتے ہیں۔ جیتی جاگتی امی کو “ممی” اور زندہ باپ کو “ڈیڈ” کہتے ہیں اور تو اور سمندر کے کنارے کو “بیچ” کہتے ہیں۔
کہتے ہیں ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور ہر چھینک کرونا نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں کرونا وائرس بہت جلد ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ وہ میڈ ان چائنا ہے۔ ویسے بھی اگر پاکستانی عوام کو کرونا کی وجہ سے گھروں تک محدود کردیا گیا تو پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی اگلے سال 44 کروڑ ہو جائے گی۔ مزید کہتے ویسے بھی کچھ پاکستانی لوگوں کا غصہ کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور وہ لوگ “بیویاں” ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی مجھے کہتے کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے گھر بیٹھا پڑ گیا تو زوجہ محترمہ جب بھی پاس سے گزرتی ہیں تو مجھے دیکھتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ مار کر باآواز بلند کہتی ہیں “اللہ بچائے اس مصیبت اور بیماری سے جو گلے پڑ گئی ہے” میں نے پوچھا آپ پھر کلینک پر کیسے؟؟ کہتے زوجہ محترمہ زیادہ تنگ کر رہی تھی تو میں نے گورنمنٹ کی دی گئی سہولت سے استفادہ کیا اور 1166 پر فورا فون کرکے اپنی زوجہ پر کرونا وائرس کا شاک رپوٹ کروایا اور اب وہ چودہ دن کے لئے قرطینیہ میں اور میں موج میں۔
اتنے میں ڈاکٹر صاحب کا ملازم چائے لے کر اندر آیا تو انھوں نے ملازم سے پوچھا آج کتنے مریض فوت ہوئے؟ ملازم نے جواب دیا: سات جناب۔ ڈاکٹر بولے: مگر میں نے تو نو مریضوں کو دوائی لکھ کر دی تھی. ملازم بولا: جناب دو مریضوں نے دوائی لینے سے انکار کر دیا تھا۔
آپ ان ڈاکٹر کی باتوں کو چھوڑیں اور ایسے لوگوں کی باتوں کو بھی جو کہتے ہیں کہ کرونا چین اور یورپ میں آیا تو اللہ کا عذاب, سعودیہ میں آیا تو آزمائش, ایران میں آیا تو یہودی سازش اور پاکستان میں آیا تو حکومت کی نااہلی اور ان لوگوں کی باتیں بھی چھوڑیں جو کہتے ہیں کرونا سے مکمل اسلامی ماحول: پردہ, سادگی سے شادی, آوارہ گردی بند, مکمل لباس تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک مہینہ پہلے ذخیرہ خوروں کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے اور اب خود گھروں میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔
بس اتنا سمجھ لیں ایک چھوٹے سے وائرس نے پوری دنیا کی ٹیکنالوجی فیل کر دی۔ اور ثابت کردیا سپر پاور صرف میرا اللہ ہے۔ سب کچھ ہر جگہ بند ہو رہا ہے مگر توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔ کثرت سے توبہ کریں۔ اور تمام حاجی صاحبان سے گزارش ہے کرونا وائرس کی ویکسین بن جانے تک کفار کی تباہی کی دعائیں موخر کردیں۔ اور اگر آپ کو نارمل نزلہ زکام یا کھانسی ہے تو پاکستانی نیوز چینل سے دور رہیں۔ ورنہ میرا کالم پڑھنے سے پہلے ہی آپ ڈر ڈر کے ہی فوت ہو جائیں گے۔ آخر میں احتیاط کریں اور دوسروں کو بھی قائل کریں۔ لاپرواہی اور ہٹ دھرمی بہادری نہیں ہوتی۔

*موجودہ حالات میں ان گانوں سے سختی سے پرہیز کیا جائے WHO:*

لگ جا گلے کہ پھریہ حسیں رات ہو کہ نہ ہو۔ (سختی سے ممنوع)

باہوں میں چلے آؤ
(سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)

تم پاس آئے یوں مسکرائے
(نا ممکن۔۔۔ نا ممکن!)

مسافر ہوں یارو۔۔ مجھے چلتے جانا ہے۔
(پاگل ہو گئے ہو؟ حکومت کی ہدایات ہیں کہ اپنے گھر میں لاک ڈاؤن رہنا ہے)

*خوشخبری:*

مندرجہ ذیل گانے WHO نے پاس کر دئے ہیں۔۔

تیری دنیا سے دور
ہو کے چلا مجبور
(ہاں یہ ٹھیک ہے)

تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد
(جی بالکل بالکل یہی جذبہ ہونا چاہئیے۔۔!)

چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے لیکن کبھی اب نام کو تیرے آواز میں نہ دوں گا
(شاباش۔۔۔کوشش بھی نہ کرنا۔ ویسے آواز دو گے بھی تو میں تو نہیں آؤں گی)

چُھپ گیا کوئی رے دور سے پکار کے
(شریف آدمی اور آپ کا سچا ہمدرد ۔۔!)

*ورنہ عمل نہ کرنے کی صورت میں:*
مندرجہ ذیل گانوں کی ضرورت پیش آئے گی.

زندگی جا چھوڑ دے پیچھا میرا ۔۔۔

تیری دنیا سے دور ، چلے ہو کے مجبور ، ہمیں یاد رکھنا ۔۔۔

یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے ، افسوس ہم نہ ہوں گے ۔۔۔

*اور آپکی محبوبہ رو رو کر گائے گی کہ:*

جگر چھلنی ھے دل گھبرا رہا ھے ، محبت کا جنازہ جا رہا ھے ۔۔۔
__________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں