ڈر، درد یا ڈار؛ تحریر: حسن نصیر سندھو

ڈار شخص با اصول ڈار شخص با ضمیر
اپنی ذات تک ذاتی مفاد تک
ہر محفل کا کوئی چاند ہوتا ہے کوئی ستارہ ہوتا ہے اور کوئی ڈار ہوتا ہے عموما ہم سب کا ایک ایسا دوست ضرور ہوتا ہے جس کے پاس پیسے ہوتے ہوئے بھی پیسے نہیں ہوتے اور وہی ڈار ہوتا ہے ہماری محفل میں بھی ایک ڈار ہیں۔ ڈار صاحب کی قدر میں باقی دوستوں میں سے اس لیے بھی زیادہ کرتا ہوں کہ وہ عموما اوچھی حرکتیں کرکے معصوم بن جاتے ہیں اور یہ بہت بڑا ٹیلنٹ ہے جو عموما سوتن یعنی کی دوسری بیوی میں پایا جاتا ہے کیونکہ فرشتے بھی معصوم ہوتے ہیں تو ڈار صاحب اپنے آپ کو انسان نہیں سمجھتے فرشتہ سمجھتے ہیں۔ ان کے کام بھی فرشتوں جیسے ہیں یعنی دوسروں کے گناہوں اور برائیوں کا حساب رکھنا۔
ڈار صاحب میں ایک خوبی اور ہے کہ وہ ہر چیز کے آداب فٹافٹ سیکھ جاتے ہیں۔ مگر محفل میں کھانے کے آداب جو انہیں آتے ہیں وہ بڑے بڑے پہلوانوں اور گوجرانوالہ کے بٹ صاحبان کو بھی نہیں آتے عموما معدہ خراب کی شکایت منہ پر سجائے رکھتے ہیں اور جتنا 8 دوست مل کر کھاتے ہیں اتنا وہ اور ان کا معدہ خوراک پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ سیکھنے سے یاد آیا انسان کو بولنا سیکھنے میں دو سال لگتے ہیں لیکن ڈار صاحب کو کون سا لفظ کہاں بولنا ہے یہ یہاں تو انھوں نے سیکھا ہی نہیں یا شروع سے سیکھنا ہی بھول گئے۔
ڈار صاحب کافی سوشل آدمی ہیں ہیں ان کا اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ کافی اٹھنا بیٹھنا ہے. جب وہ بیٹھتے ہیں تو دوست اٹھ کے چلے جاتے ہیں اور جب رشتےدار بیٹھتے ہیں تو وہ اٹھ کے چلے جاتے ہیں ویسے آج کل وہ اپنی بیوی کے گڈوںگٹووں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
ڈار صاحب لڑکیوں کے معاملے میں کافی لطیف حس رکھتے ہیں بقول ڈار صاحب جگہ کے بغیر محبت ادھوری رہتی ہے ایک دفع دونوں میاں بیوی آرٹ گیلری میں چلے گئے وہاں ایک پینٹنگ دیکھنا شروع کر دی جس میں لڑکی کے جسم پر صرف درخت کے پتے تھے جناب غور سے گھور گھور کر دیکھنے لگ پڑے ۔ پاس کھڑی ان کی بیوی جل کر بولی اب آگے چلیں یا ہوا چلنے کا انتظار کرو گے۔ ڈار ایک بہادر شخصیت کا نام ہے پر جتنا مرضی بہادر ہو اپنا موبائل بیوی اور دوست کے ہاتھ میں دیکھ کر اس کا “تراہ” ضرور نکل جاتا ہے۔
ڈار صاحب کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے پر انہیں ایک بات کی بڑی حسرت ہے جو پوری نہیں ہوئی کہ ان کو آج تک کسی نے نہیں کہا کہ ڈار صاحب آپ اچھے آدمی ہیں۔ یہ لفظ ڈار صاحب اپنی زندگی میں تو سننے سے رہے ہمارا خیال ہے یہ الفاظ سننے کے لیے انہیں مرنا پڑے گا۔
ڈار صاحب, صاحب صحت ہیں مگر ایک بیماری کی شکایت انہیں اکثر رہتی ہے اس کے علاج کے لیے ڈار صاحب ڈاکٹر کے پاس گئے، ڈاکٹر نے پوچھا آپ کو تکلیف کیا ہے ؟ ڈار نے لجہایت بھرے لہجے میں کہا۔ پہلے آپ وعدہ کریں میری تکلیف سن کر آپ ہنسیں گے نہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ٹھیک ہے وعدہ کیا ڈار نے اپنی زبان دکھائی جو تقریبا دو گز لمبی تھی۔ ڈاکٹر کو یہ دیکھ کر ہنسی آگئی۔ ڈاکٹر سے کہا، آپ نے نہ ہنسنے کا وعدہ کیا تھا۔ ڈاکٹر نے جواب دیا، اچھا سوری، اب آپ اپنی تکلیف بتائیں؟ ڈار نے معصومیت سے تکلیف بتائی ڈاکٹر صاحب میری زبان سکڑ گئی ہے۔
موصوف نے بڑی تیاری کے بعد مقابلے کے امتحان دیے۔ رزلٹ کے بعد دوستوں نے پوچھا تمہارا رزلٹ اتنا برا کیوں آیا ہے ڈار صاحب کا جواب سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں، کہتے ہیں اچھے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ ہم بھی اک امتحان میں بیٹھے تھے مقابلہ تھا “شکی کنجوس” کی تعریف لکھیں لوگ گوگل سے جواب ڈھونڈتے رہ گئے میں نےجواب “ڈار” لکھ دیا۔
میرا دوستوں کو مشورہ ہے ہے ہے صبر اور شکر دونوں ہی کا بڑا درجہ ہے صبر مصیبت کو ختم کرتا ہے اور شکر نعمتوں کو بڑھاتا ہے اسلئے متاثرین ڈار!!! اگر ڈار گھر ہو تو شکر کرو اور اگر ہمارے درمیان ہو تو صبر کرو۔ آخر میں ایسے تمام دوست جو ڈار جیسے ہیں ان کے لئے یہ پیغام۔
نا غریب نوں ویکھ کے ہسیا کر
نا بری نظر نا ل تکیا کر
لوکان دے عیب لبھدا ایں فریدا
کدی اپنے اندر وی تکیا کر
__________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں