کرونا ایک ڈراؤنا خواب، تحریر: ثناء آغا خان

دنیا بھر کے انسان جہاں کرونا کے شدید خوف میں گرفتاراوراس افتاد سے پناہ مانگ رہے ہیں وہاں اس خطرہ سے کئی طرح کی خیر بھی برآمدہوئی ہے۔ کرونا منظرعام پر آنے کے بعد دنیا میں کئی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ آج ہرانسان ایک دوسرے کی عافیت اورصحت و تندرستی کیلئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست دعادرازکررہاہے ۔کرونا کے سبب جہاں جنازے اٹھ رہے ہیں وہاں کئی امید افزاء اور حوالہ افزاء واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔جہاں مٹھی بھر دولت کے پجاری انسانوں کا استعمال کررہے ہیں وہاں ثروت مندشخصیات کے عطیات سے انسان کا انسانیت پراعتماد بحال ہوا ہے۔کروناکے نتیجہ میں ہونیوالی اموات کے مقابلے میں جام صحت نوش کرنیوالے افراد کی تعدادبہت زیادہ ہے لہٰذاءڈرکواپنے اندردفنادیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے اچھاگمان رکھیں۔ کروناایک ایساڈراﺅناخواب ہے جوعنقریب قصہ پارینہ بن جائے گا جبکہ انسانیت کاسفر جاری رہے گا ۔کرونا وباکے نتیجہ میںشراب خانوں سمیت ہرطرح کے گناہ خانوں کا” شٹرڈاﺅن” جبکہ برائیوں کی طرف دوڑنے والی گاڑیوں کا”پہیہ جام” ہوگیا ہے جبکہ عبادت خانوں سمیت شہریوں کی چھتوں سے اذانوں اوراجتماعی دعاﺅں کی صداﺅں کاروح پرورسلسلہ جاری ہے ۔اذان ہر انسان کیلئے اصلاح اور فلاح کی دعوت ہے۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین کے ہرپاک مقام پرنمازاداکی جاسکتی ہے یعنی مساجدبندہونے کی صورت میں مسلمان اپنے اپنے گھر میں تنہا یاباجماعت نمازاداکرسکتے ہیں۔دین فطرت اسلام میں اہل اسلام کیلئے بہت آسودگی ،آسانی اورکامرانی ہے ۔بیماری سے بچاﺅاورنجات کیلئے انسان کااپنے معبود سے رجوع کرنا خوش آئند ہے،اورہم لوگ جابھی کہاں سکتے ہیں۔انسان کوجس نام نہاد ترقی کازعم تھا ،اس ترقی کاانجام اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ،ہرعہد کا انسان بیشک اللہ رب العزت کے رحم وکرم پررہاہے جبکہ آج بھی ہم اپنے ربّ کے رحم وکرم پرہیں ۔کاش انسان ایٹم بم بنانے کی بجائے اپنے اوراپنے پیاروں کے غم والم کامداواجبکہ ان کی اشک شوئی کرنے کیلئے وسائل صرف کرتاتوآج دنیابھر میں صف ماتم نہ بچھی ہوتی ،آج نام نہادسپرپاورامریکا کرونا کے آگے سرنگوں نہ ہوتا۔اگرکرونا کے باوجود مقتدر قوتوں نے سوچ بچار نہ کی اوران کی ترجیحات میں مثبت تبدیلی نہ آئی توپھر خدانخواستہ کرونا کے بعد اس سے زیادہ مہلک وبا بھی سراٹھاسکتی ہے۔
معتوب ومغلوب کشمیریوں اور بے سہارا فلسطینیوں کی طرح آج نام نہاد سپرپاور سمیت پوری دنیا محصور ہے۔اگرعالمی ضمیر نے روہنگیا ،فلسطینی اورکشمیری مسلمانوں کی چیخوں اورآہوں پراپنے کان بندنہ کئے ہوتے توآج دنیا بھر میں نظام حیات بند نہ ہوتا۔کرونانے انسانوں کادھیان گناہوں سے ہٹاکران کارخ قدرت ، روحانیت اورانسانیت کی طرف موڑدیا ہے ۔کرونا کے حملے سے ہونیوالی ہزاروں اموات اوردلخراش اطلاعات کے باوجود امید زندہ اورزندگی رواں دواں ہے۔میں سمجھتی ہوںیہ تاریک رات طویل ہوسکتی ہے مگر عنقریب اس کی کوکھ سے روشن سویرا ظہور ہو گا ۔ پسماندہ ملکوں کوقرض کے بوجھ تلے دبانے اوران کااستحصال کر نے والی مقتدرقوتوں کی معیشت کوبھی بڑادھچکا لگا ہے۔پاکستان کاہمسایہ اوردیرینہ دوست ملک چین کرونا وبا سے کچھ روزتک بے چین رہا مگر اس نے بحیثیت قوم اس وبائی مرض پرقابوپالیا اورپھر سے اپنے پیروں پرکھڑا ہوگیا۔چین میں پیش آنیوالے حادثات،چینی حکام کے مشاہدات اورتجربات ہمارے کام آرہے ہیں ۔پاکستان نے نازک وقت میں اپنے مخلص دوست چین کی بھرپورمددکی اوراب چین بھی سودوزیاں سے بے نیاز دوستی کا حق اداکرتے ہوئے پاکستان کی خاطر خواہ مددکررہا ہے۔پاک فوج ،رینجرز،پولیس ،ڈاکٹرز،نرسز اورپیرامیڈیکل سٹاف سمیت پاکستان کے قومی ادارے نہایت مستعدومنظم جبکہ عوام بہت سخت جان ہیں وہ دہشت گردی اور ڈینگی کی طرح کروناکوبھی شکست فاش دیں گے۔پاکستان کے حکام اورعوام بہت باہمت ،پرجوش اورپرعزم ہیں ،وہ کچھ دیر سے ضروراٹھتے ہیں مگر جب اٹھ جاتے ہیں توپھر ان کی راہ میں کوئی پہاڑ بھی آجائے تووہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ہمارامعبود برحق بہت قادروکارساز ہے،وہ اہل اسلام اوراہل انسانیت کوہرگز تنہااوربے یارومددگار نہیں چھوڑسکتا۔اللہ تعالیٰ سے اچھاگمان اوراس کی رحمت پرتوکل رکھنا ہماراایمان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسباب اوراختیاطی تدابیر اختیارکرنا بھی ناگزیر ہے۔
توکل اس کو کہتے ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا
اور انجام اسکی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
پاکستان کے فرض شناس اورانسانیت کے مسیحا ڈاکٹرز، انسانیت سے والہانہ محبت کی علمبردار نرسز اور مستعدپیرامیڈیکل سٹاف کرونامتاثرین کی بحالی اور صحت وتندرستی کیلئے انتھک انداز سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انسانیت کی ہمدردڈاکٹر جاویداقبال ملک ،ڈاکٹرانعم پری اوران کے دوسرے انسان دوست ساتھی ڈاکٹر احسن فاروق، ڈاکٹر اعزاز ،ڈاکٹر مہک علی،پروفیسر ڈاکٹر طارق وسیم،ڈاکٹر حارث انعام خان اور ان کے ٹیم ممبرزصلہ رحمی کے تحت رضاکارانہ طورپر مزدور ،مفلس اورمستحق طبقات کو خوراک اوردوسری ضروریات زندگی مفت مہیا کر ر ہے ہیں۔یہ مسیحااپنے صادق جذبوں کے ساتھ انسانیت کی خدمت کیلئے سرگرم ہیں،اللہ تعالیٰ ان کے عطیات کوقبول فرمائے۔اپنی جان ہتھیلی پررکھ کردوسروں کی زندگی بچانے والے ہماراسرمایہ افتخاراورکرونا کے سبب گھٹن زدہ معاشرے کیلئے تازہ ہواکاجھونکا ہیں۔لاہورپولیس کی طرف سے معاشرے کے ان مسیحاﺅں کی عزت افزائی اورحوصلہ افزائی مستحسن اقدام ہے ۔یہ مسیحا جوایک طرح سے خودکفن پوش ہیں ،وہ کروناکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے شکنجے سے سینکڑوں متاثرین کوزندگی کی طرف واپس لے آئے ہیں۔ینگ ڈاکٹرز بھی دبنگ انداز سے کرونا پرکاری ضرب لگا رہے ہیں۔شہریوں سے درخواست ہے وہ اپنے پیاروں کی تیمارداری کے دوران ڈیوٹی پرموجود ڈاکٹرز ،نرسزاوردوسرے سٹاف کی عزت اوران کے ساتھ نرمی سے بات کریں۔کام کے بوجھ کی وجہ سے اگر ڈاکٹرزیانرسزکی طرف سے کوئی بات آپ کے مزاج پر ناگواربھی گزرے توپلیزدرگزر کردیں ۔ کروناکیخلاف سربکف چندکفن پوش ڈاکٹرز،نرسزاورسکیورٹی فورسز کے اہلکاروںنے جام شہادت بھی نوش کیا ہے،وہ ہمارے قومی ہیروز ہیں ۔ان قومی شہداءکانام ہمیشہ عقیدت ومحبت اوراحترام سے لیاجائے گا۔
کرونا وبا کی شروعات سے اب تک طرح طرح کی قیاس آرائیاں سننے اورپڑھنے کوملی ہیں بلکہ ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے ۔سوشل میڈیا انکشافات،مشوروں،ٹوٹکوں ، مختلف دعوﺅں اوراختیاطی تدابیر سے بھرا پڑا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی روسے ہم سچائی تک رسائی کے بغیرکوئی معلومات دوسروں تک منتقل نہیں کرسکتے لہٰذاءجس طرح کروناسے بچاﺅکیلئے اختیاطی تدابیر اختیارکرنااشد ضروری ہے اس طرح معلومات ایک دوسرے سے شیئرکرتے ہوئے بھی ہمیں بہت محتاط رہناہوگا۔ صرف مستندمعلومات دوسروںکوفارورڈ کریں کیونکہ کوئی آپ پراعتماد کرکے کسی ناقص دوا کااستعمال شروع نہ کردے ۔لوگ کرونا سے بچاﺅاورنجات کیلئے ایک دوسرے پراعتماد اورانحصار کررہے ہیں لہٰذاءہمارامعاشرہ کرونا کے معاملے میں کسی قسم کی گمراہی یامجرمانہ غفلت کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ کرونا وباسرمایہ داراورمزدورسمیت معاشرے کے ہرطبقہ کیلئے مہلک ہے ،اس وبا نے طبقاتی تفریق ختم کردی لہٰذاءیہ پوائنٹ سکورنگ یاسیاست نہیں بلکہ قومی جذبہ کے تحت بیمارانسانیت کی خدمت کاوقت ہے۔ میں سمجھتی ہوں حکومت پرتنقید کرنے اوراس کام میں قیمتی وقت بربادکرنے کی بجائے ہم اپنی اپنی سطح پرکروناکونابود کرنے کیلئے جوکچھ کرسکتے وہ کرگزریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں