رنجیدہ اور سنجیدہ، تحریر: ثناء آغا خان

ہماری زندگی ہمارے پاس معبودبرحق کی امانت اوروہ جب چاہے واپس لے سکتاہے تاہم بحیثیت مسلمان اور انسان اس بیش قیمت امانت کی حفاظت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاسکتی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوکسی قیمت پراپنی زندگی ختم کرنے کااختیار نہیں دیا ،اسلامی تعلیمات کی روسے بیماری طلب کرنا جائز نہیں تاہم فطری طورپر بیمارہونے کی صورت میں زندگی بچانے کیلئے دعاﺅں اوردواﺅں کے ساتھ ساتھ ضروری اسباب اختیارکرنا بھی فرض ہے۔اسلامی تعلیمات کی روسے اگر زندگی کو خطرات درپیش ہوںاورحلال طعام دستیاب نہ ہوتوحرام کی مخصوص مقدار تناول کی جاسکتی ہے ،اللہ پاک نے انتہائی مجبوری کی صورت میں حرام کی اجازت دے کر زندگی کی اہمیت اجاگرکردی ۔جولوگ آفات وبلیات اورخطرات کے باوجود”سنجیدہ” نہیں ہوتے پھرانہیں” رنجیدہ” ہونااورپچھتاناپڑتا ہے۔زندہ ضمیرانسان زندگی اوربندگی کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہوتے ہیں۔جس طرح ہم اپنی اوراپنے پیاروں کی زندگی کیلئے حساس ہوتے ہیں اس طرح اپنے دوست احباب اوراہلیان شہرکووبائی امراض سے بچانے اوران کی زندگیوں کودرپیش خطرات پرقابوپانے کیلئے بھی ہمیں اپنا کلیدی کرداراداکرناہوگا ۔
ہماری اورہمارے پیاروں کی بیش قیمت زندگی کا اختتام خدانخواستہ کسی ندامت پر نہ ہو اسلئے بحیثیت انسان کچھ ایسااہتمام کریں جس سے ہمارے قلوب میں موت کا خوف نہ رہے اورجب ہم دنیا سے رخصت ہوں توہمارے پیاروں کی آنکھیں اشکبار ہوں۔اگر کرونا انسانیت کیخلاف ایک سازش ہے تو اس سے بڑی اورگہری سازش ہم خود اپنے اوراپنوں کیخلاف کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے لوگ ہدایات اوراختیاطی تدابیر کی قطعی پرواہ نہیں کررہے۔ہمارے انفرادی اوراجتماعی رویوں سے ہمارااپناراستہ دشوار اورسفر کٹھن ہورہا ہے۔اگرآج سنجیدگی کامظاہرہ کیاجائے توکورونا کومحدودکیاجاسکتا تھاورنہ خدانخواستہ یہ ہماری سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اورمعاشی سرگرمیاں محدودکردے گا ۔آج دنیابھر میں رنجیدہ ماحول اورہرباضمیرانسان سوگوار ہے مگر پاکستان کے لوگ کورونا سے بچاﺅاورنجات کیلئے سنجیدہ نہیں ہورہے،انہیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے عزیزواقارب کی زندگی سے کھیلنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا ۔بیشک بحیثیت قوم ہم نے کوروناکوروکنا بلکہ کچلناہے اسلئے ان سماج دشمن عناصر کامحاسبہ کرناہوگا جوشاہراہوں ،تجارتی مراکزاورہسپتالوں میں خوامخواہ دندناتے پھررہے ہیں۔اس نازک وقت میں ہمیں بحیثیت باشعورشہری منتخب حکومت ،ریاستی اداروں،مسیحاﺅں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔مگر افسوس اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے مٹھی بھر عاقبت نااندیش عناصرمحض” ٹائم پاس ”بلکہ نام نہاد” فن” اورشغل کیلئے سوشل میڈیا پر بے سروپامعلومات عام کررہے ہیں جو دیکھ اور سن کر سنجیدہ لوگ انتہائی رنجیدہ ہورہے ہیں۔ ایک دہائی پرانامواداورپرانی ویڈیوز بھی دوبارہ سنسنی خیز تحریر وںکے ساتھ اپ لوڈ کی جا رہی ہیں۔ نازک وقت میںمثبت سوچ اورشعور کو فروغ دینے اورشہریوں کامورال ہائی کرنے کی جائے شہریوں کوہراساں اورگمراہ کیا جارہا ہے۔ہر معاشرے میں بیک وقت مثبت اورمنفی سوچ کے حامل افراد موجود ہوتے ہیں۔اس پرآشوب دورمیں کام کادباﺅہے لہٰذاءاس ماحول میں ہم سب سے غلطیاں بھی ہوں گی مگر غلطی اوربدنیتی یامجرمانہ غفلت میں زمین آسمان کافرق ہوتا ہے ،ا ن دنوں ہمیں دوسروں کی معمولی غلطیاں اورتلخیاں نظراندازکرتے ہوئے بہتری کیلئے آگے بڑھناہے، ہمیں جانے انجانے میں سرزدہونیوالی غلطیوں پرتنازعہ کھڑاکرنے یا تماشا لگانے سے گریزکرناہوگا۔میں سمجھتی ہوںہماراسچائی تک رسائی یقینی بنائے بغیرحساس معلومات دوسروں کو فاروڈ کرنا کسی گناہ کبیرہ کی مترادف ہے ۔ چندروز قبل بھی کچھ ویڈیوز میری نگاہوں سے گزریں، نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو اس نازک وقت میں بھی شرانگیزی اورشیطانی سے باز نہیں آ رہے۔ سوشل میڈیا پربدنیتی سے بار بارفرض شناس اورسرفروش ڈاکٹرز سے منسوب ایسی ویڈیوز وائرل اور ڈاکٹرزکی صورت میں مسیحاﺅں کوبدنام کرنابدترین جہالت ہے ۔خدارا اس وقت مثبت سوچ کامظاہرہ اور انسانیت کی فلاح کیلئے تعمیراتی کام کریں۔
عوام کوگمراہ اورمشتعل کرنیوالے مواد کواپنے اپنے سوشل میڈیااکاﺅنٹ سے فوری ہٹادیں ۔ میں سمجھتی ہوں کوروناکیخلاف برسرپیکاربیمارانسانیت کی انتھک خدمت کیلئے کوشاں فرض شناس ڈاکٹرز کی بے بنیاد ویڈیوز کے ساتھ گمراہ کن معلومات سوشل میڈیا پر”شیئر”کرنابدترین”شر ”کے زمرے میں آتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ توپوں کارخ علماءحضرات کی طرف رخ موڑدیاگیاہے ،میں سمجھتی ہوں جو لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں ریاستی اداروں میں ان کی رپورٹ کی جائے۔فارغ بیٹھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کے آپ کا جو دل کرے کسی فرض شناس شہری کے بارے میں منفی جذبات اورزہریلے خیالات سوشل میڈیا پراگل دیں ۔ جوزیادہ کام کرتا ہے اس سے غلطیاں سرزدہونافطری امر ہے ،معاشرے کاکوئی طبقہ غلطیوں سے مستثنیٰ نہیں۔ سوشل میڈیاپر متحرک مٹھی بھر افراد کاڈاکٹرز،نرسزاورعلماءسمیت معاشرے کے اہم اورحساس طبقات کیخلاف منفی پروپیگنڈا ناقابل فہم اورناقابل برداشت ہے۔مخصوص افراد کی طرف سے یہ تاثرکہ ڈاکٹرز مریضوں پردھیان نہیں دے رہے قطعی بے بنیاد ہے، اس سوچ کافوری علاج کیاجائے ورنہ یہ معاشرے کوبیمارکردے گی۔یہ شیعہ، سنی ،وہابی اور بریلوی علماءکے ساتھ اختلافات اوران پرتنقید کا وقت نہیں ہے۔خدارا ایسی منفی سوچ کواپنے اپنے اندردفنادیں ورنہ خدانخواستہ یہ معاشرے کوفناکردے گی۔یہ آپس میں” الجھاﺅ”نہیں بلکہ اس ناگہانی آفت سے” بچاﺅ”کاوقت ہے ۔ اگرکوئی کسی نیک کام کیلئے ایک قدم بڑھائے تو اسے دوسرا قدم بڑھانے کا راستہ دیں اوراگر کسی کے قدم ڈگمگائیں تواسے فوری سہارادیں۔ ہوسکتا ہے کسی نیک کام کیلئے آپ کا راستہ بنانا آپ کی مغفرت اور بخشش کا ذریعہ بن جائے۔ اس وقت کون کیا کر رہا ہے یہ اہم نہیں،آپ ایک صحت مند معاشرے کیلئے کیا مثبت اقدام کررہے ہیں یہ مورخ یادرکھیں گے ۔ خدارا ملک وقوم کی بقاءاوربہبود کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلیں۔ چندعاقبت نااندیش اورمایوس عناصر کے کام نہ کرنے سے کاروبار زندگی رکتا نہیں اور سب سے بڑھ کرآزاد میڈیا کی آواز بند نہ کریںاور نہ ہی ان نڈراورانتھک ڈاکٹرز کی حوصلہ شکنی کریںجو اپنے ماں باپ ،بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر متاثرین کوروناکی قیمتی زندگی بچانے کیلئے موت سے کھیلنے میں محو ہیں۔ ڈاکٹرزپرتنقیدکی بجائے انہیںسلیوٹ کریں جوانسانیت کی خدمت کیلئے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں۔ ہم اپنے پیاروں کے ساتھ گھروں میں محصور نہیں بلکہ محفوظ ہیں۔ ایک منظم ٹیم کی طرح کام ا ور ڈاکٹرزکی ہرایک ٹیم کی حوصلہ افزائی کریں جواس وقت کوروناوباکیخلاف جنگ کاہراول دستہ ہے۔ اس وقت ہمارے محافظوں ،صحافیوں اورمسیحاﺅں کوہماری دعاﺅں اوروفاﺅں کی اشد ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں