کورونا وائرس: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی طبیعت سنبھلنے لگی

کورونا وائرس کی بیماری میں مبتلا برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کی طبیعت سنبھلنے لگی۔

برطانیہ میں وزیر اعظم کے دفتر ڈاؤننگ سٹریم کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن کی حالت سنبھل گئی ہے۔ کورونا وائرس کی علامات کے شدید تر ہونے کے بعد انھوں نے رات ہپستال کے انتہائی نگہداشت میں گزاری۔

وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ بورس جانسن اب بہتر ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔

دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اب سادہ آکسیجن کی مدد سے بحال ہو رہے ہیں اور بغیر کسی سپورٹ کے سانس لے سکتے ہیں۔ اب انہیں مشینی اور مصنوعی سانس کی ضرورت نہیں رہی اور ان کا نظام تنفس بہتر ہے۔وزیر اعظم میں نمونیا کی تشخیص نہیں ہوئی۔

برطانیہ کے وزیر اعظم کورونا وائرس کے باعث ہسپتال میں ہیں ایسے میں برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب وزیر اعظم بورس جانس کی غیر موجودگی میں جہاں ضرورت ہے ان کی نمائندگی کریں گے۔

تاہم وزیر اعظم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر راب بھی بیمار پڑتے ہیں تو ان کی جگہ چانسلر رشی سنک وزیر اعظم کی نمائندگی کریں گے۔

اس سے قبل بورس جانسن کی آئی سی یو میں منتقلی کی خبر آتے ہی دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے ان کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات پر مبنی پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ٹویٹر پر مسٹر جانسن کے ساتھ اپنی ایک تصویر شیئر کی۔

جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زیبرٹ نے برطانوی وزیراعظم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ چانسلر میرکل بورس جانسن کی جلد صحت یابی کی تمنا کرتی ہیں اور امید کرتی ہیں کہ وہ صحت یاب ہوکر اسپتال سے جلدی ہی باہر آجائیں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیراعظم کے کووڈ19 میں مبتلا ہونے اور ان کی حالات کے بارے میں سن کر انہیں کافی دکھ پہنچا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون، ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک رُٹے، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو اور بھارتی وزیر اعظم نریند مودی سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی ان کی صحت یابی کیلئے دعائیں کیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر برائے امور کابینہ مائیکل گوو اپنے خاندان کے ایک رکن میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد خود بھی قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ انھیں یقیناً اب آن لائن ہی کام کرنا پڑے گا اور وزیراعظم کی صورتحال کے پیشِ نظر کابینہ کے امور اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

دریں اثناء برطانوی ادارہ صحت بی ایم اے کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ناکارہ حفاظتی کٹس کی وجہ سے ڈاکٹرز کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ کچھ نے تو ان کی فراہمی کو بے سود قرار دیا۔

بی ایم اے کے سروے کے مطابق تقریباً 2000 طبر کارکنوں جن میں سے دو تہائی ڈاکٹرز تھے نے کہا ہے کہ وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا تھا ’ہمارے آنکھوں کے تحفظ کرنے والی ڈھال اور ہمارا ایپرن ناکارہ ہیں۔ کچھ حفاظتی سامان تو بس خانہ پوری ہے لگا رہا ہے جو صرف ایک نفسیاتی یقین دہانی ہے۔‘

یہ تفصیلات ایسے میں سامنے آئی ہیں جب حال ہی میں لندن کی ایمولینس سروس کے اہلکاروں نے کہا کہ انہی دی گئی حفاظتی کٹس ایسی ہیں جو سینڈویچ بنانے والوں کو دی جاتی ہیں۔

اُدھر ایران میں عدالتی ترجمان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد اب تک ایران میں زہریلی شراب پینے کے بعد 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مزید 3000 افراد اسی وجہ سے بیمار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لوگ غیر محفوظ الحکوہل پی رہے ہیں کیونکہ انہیں یہ مغالطہ ہو گیا ہے کہ ایسا کرنے سے ثو وہ اس سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ متعدد افراد کو غیر قانونی طور پر الحکوہل بنانے کے جرم میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ایران میں اب تک 62500 سے زائد کورونا کے کیسز کی تصدیق ہوئی ہے تاہم وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی یومیہ تعداد میں گذشتہ ہفتے کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

دریں اثناء کورونا وائرس کی وبا پھیلنے اور جنوری میں پہلی موت کی خبر دینے کے بعد منگل سات اپریل کو پہلا موقع تھا جب چین میں وائرس کی وجہ سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔

چین کے قومی صحت کمیشن کے مطابق ملک میں صرف 32 نئے متاثرین سامنے آئے، جو کہ پیر کے مقابلے میں سات کم تھے۔ چین کی جانب سے کورونا وائرس کے کم ہوتے ہوئے اعداد و شمار پر کئی نے شکوک کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ چین تعداد کم بتا رہا ہے۔

دوسری طرف انڈیا کے سب سے بڑے شہروں دارالحکومت نئی دہلی اور ممبئی میں تین ہسپتالوں کو اس وقت بند کرنا پڑا جب ان میں موجود سٹاف میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

ممبیئی میں ووکہارٹ ہسپتال میں 50 سے زائد سٹاف ممبرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ شہر کے مشہور نجی ہسپتال جسلوک ہسپتال میں دس نرسوں کے ٹیسٹ مثبت آئے۔

ادھر نئی دہلی میں مشہور سرکاری ہسپتال جو کینسر کے علاج کے لیے مشہور ہے کو اس وقت بند کرنا پڑا جب عملے کے 18 اراکین میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی جن میں نرسیں اور ڈاکٹر بھی شامل تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں