نوکری کیا لگی گویا لاٹری لگ گئی ہرماہ معقول تنخواہ جیب میں آنے لگی۔ قدم جو پورا ماہ چلتے تھے تنخواہ والے دن ہوا میں اڑنے لگے۔ جس دن تنخواہ ملنے کا دن ہوتا گویا وہ ہمارا عید کا دن ہوتا پورا مہینہ نہاتے یا نہاتے اس دن نہا کر نیا کرتا پہن کر ادارے کی طرف چل پڑتے۔ تمام کولیگز کو چور نگاہوں سے تکتے کہ کسی کے چہرے کی لالی سے سراغ پالیں کہ وہ تنخواہ جیسی نعمت سے مالا مال ہو چکا ہے کہ نہی چہرے کی لالی اگر نظر نہ آتی تو کیفے ٹیریا کی طرف نظر دوڑاتے اس تلاش میں کہ کسی کو لیگ کی ہریالی وہاں نظر آ جائے۔ غرض ان گنت بار نظر دوڑاتے اور تھک ہار کا روز محشر کی طرح حساب کتاب یعنی سیلری ملنے کے وقت کا انتظار کرتے۔
ہر دوست ان لمحات کی تاکید کرے گا جو پورے ماہ میں سب سے زیادہ ملے جلے جذبات لیے ہوتا ہے۔ اور وہ لمحات اکاؤنٹنٹ کے آفس میں سیلری لے جانے کے ہوتے ہیں۔ ویسے تو مشہور ہے کہ انسان کے چہرے پر تین دفعہ نور دیکھا جاتا ہے۔ ایک اس کے پیدا ہونے پر، دوسرا اس کی شادی پر اور اگر عمال اچھے رہے پوری زندگی تو مرنے کے بعد۔ پر سیلری ملنے پر جو چہروں پر سرور دیکھا گیا ہے وہ اس نور کو بھی مات دے جاتا ہے۔ آپ کے کولیگ پورا مہینہ آپ کو منہ لگائیں یا نہ لگائیں، کچھ پوچھیں یا نہ پوچھیں سیلری والے دن آپ سے ضرور ایک ہی بات مختلف انداز سے پوچھتے نظر آئیں گے۔ وہ انداز بھی اپنے اندر مختلف مفہوم کا ایک مجموعہ ہوتا ہے ان کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی مثلا چند فکرات ملاحظہ ہوں “آج بڑے چمک رہے ہو چندا”
لگتا ہے ہے آج جیب کا روزہ ٹوٹ گیا ہے” ” آج تے کوئی لفٹ ہی نہیں” “لب گئی ہے؟؟” آج تے جیب بھاری بھاری اے” “اکاؤنٹ بولیا کہ نہیں” “مٹھائی ملی کہ نہیں۔”
اب ان لمحات کی طرف آئیں جب آپ اکاؤنٹنٹ کے دفتر کی طرف تنخواہ لینے کے لیے بڑھتے ہیں، دل کی دھڑکن زوروں پر ہوتی ہے، سانس تیز تیز چل رہی ہوتی ہے، کئی آنکھیں اور دبی دبی مسکراہٹیں آپ کا پیچھا کر رہی ہوتی ہیں، امید اور مایوسی کے ملے جلے جذبات سے جب آپ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہیں، تو اپنی ساری طاقت سب سے پہلے اکاؤنٹنٹ کے چہرے سے آنے والے پل کا اندازہ لگا لینے کی کوشش میں لگا دیتے ہیں۔ اکاؤنٹنٹ بیٹھنے کا کہہ دے تو سانس میں سانس کے ساتھ دل کو قرار بھی آجاتا ہے۔ اور اکاؤنٹنٹ فرشتہ فرشتہ سا نظر آنے لگتا ہے۔ اور اگر دوبارہ آنے کا کہے تو سانس اٹک سی جائے، کمرہ نگاہوں کے سامنے گھوم سا جائے، دل کی دھڑکن اپنی رفتار سے بھر جائے، دن میں تارے سے نظر آ جائیں جیب کے ساتھ ساتھ دنیا خالی خالی سی لگے، اپنے بھی بیگانے سے لگیں، ہر کام ادھورا سا لگے، چہرے کا رنگ اڑ جائے اور خود کو کوستے ہوئے باہر نکلتے ہی اگلے ہی سانس میں تسلی سی آ جاتی ہے کیونکہ اب وہ یہی منظر دبی دبی سی مسکراہٹ سے اپنے دوسرے دوستوں کے چہرے پر دیکھ کر بھرپور مزہ لینے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
تنخواہ دار طبقہ کے دوست، احباب، رشتہ دار اور محلے کے کریانے والے بھی جاسوسوں والی حس رکھتے ہیں۔ اگر تنخواہ مل جائے تو آپ سے ادھار واپس لینے کے لیے گڑ سے زیادہ میٹھے اور آپ کے چاروں طرف ایسے منڈلاتے نظر آتے ہیں جیسے گدھ تازہ گوشت پر۔ پر تنخواہ نہ ملے تو کریانے والے بھی دکانوں پر لکھ کر لگا دیتے ہیں ادھار صرف 80 سال یا 90 سال کے لوگوں کے لیے ہے اور وہ بھی اگر ان کے دادا گرانٹی دیں۔ ایسے ہی حالات سے مجبور ہمارے ایک کولیگ کی شادی کی سالگرہ آگئی پر تنخواہ نہ آئی ان کی بیوی نے رومانٹک بھرے انداز میں فرمائش کی مجھے کوئی سونے کی چیز دو ہمارے دوست نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور تکیہ پکڑا کر کہتے لو سو جاؤ۔
ویسے تو تنخواہ دار طبقے کہ نصیب تب ہی سو جاتے ہیں جب نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ طبقہ کبھی سکون کی نیند نہیں سو پاتا کیونکہ کبھی بچوں کی فیس کا ڈر، تو کبھی گھر کا سودا سلف، کبھی بجلی وغیرہ کا بل تو کبھی والدین کی ادویات کا خیال اور اوپر سے تنخواہ کا آنا سونے پر سہاگا ہی قرار دیا جاسکتا ہے یا گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو قرار دیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی اگر لاک ڈاؤن میں آپ کو بکھرے بالوں، بڑھی شیو، ویران آنکھیں، خالی دماغ سے بھرپور کوئی چہرہ نظر آئے تو وہ کرونا کا مریض نہیں بلکہ ہو سکتا ہے اس کی تنخواہ نہ آئی ہو۔
__________________________________________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔
Load/Hide Comments